لوک گیت
ادبیات چترال کے دامن میں لوک گیتوں کی صورت میں ایک نا در خزانہ پوشیدہ ہے۔ جس میں مرثیہ گوئی بھی ہے رزمیہ گیت بھی دیہاتی زندگی کی جھلک بھی ہے سماجی اقدار کی مہک بھی معاشرے کے مختلف طبقوں کے جذبات کا تجزیہ بھی او ر مختلف موقعوں پر ظاہر ہونے والے تاثرات کا زاویہ بھی۔ کہوار لوک گیتوں کی تعداد بہت زیادہ ہیں۔ جو سالہا سال سے سینہ بہ سینہ محفوظ چلے آرہے ہیں جنھیں حالیہ دنوں کہوار کے معروف شاعروادیب گل نواز خاکی نے کتابی شکل د ی ہے جو لائق تحسین ہے۔ یہاں پر تفصیلی تزکرہ ممکن نہیں اسلئے مختصراََ چند گیتوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔
اصناف سخن کے لحاظ سے چترال کی لوک شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے پہلی قسم نظم وغزل کی مروجہ صنعت پر کہی گئی گیت ہیں جو اکثر مثنوی طرز کی ہیں اور ہر بند غزل کے مطلع کی طرح ہوتی ہے دوسری قسم موجودہ اُردو کے آزاد شاعری کے طرز کی ہے جسے ‘‘اشُور جان ’’کہا جاتا ہے کہوا ر شاعری کا مطالعہ کرنےکیلئے پوری شعری ادب کو 5 ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے پہلا دورابتدائے زمانہ سے لیکر سولہویں صدی عیسوی تک کا دور ہے۔ اس دور کی شاعری اور ادب کے جو باقیات اب تک لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں ان میں سے نہ کسی گیت کے زمانے کا تعین کیا جا سکتا ہے اور اکثر شاعروں کے نام بھی کسی کو پتہ نہیں۔ اُن میں سے ایک گیت جسے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ابتدائی دور کا بتاتے ہیں کے خوبصورت بول یہ ہیں
روشتی اسماناری گوئے چھوئی بو ماری گوئے !
مہ خوش تان دوراری گوے! تتے غیروم اوا
چُوست تان خدایو گوڑ! پری تان میرژوریان گوڑ!
گدیریو مو مارے۔
ترجمہ۔ صبح کی روشنی یعنی طلوع سحرآسمان سے اور شب کی تاریکی زمین سے آتی ہے اور میری محبوب اپنے گھر سے جلوہ نما ہوتی ہے ۔
ائے حسین نازنین تجھے خدا کا واسطہ ! ائے پر ی رُخ ! تجھے پرستان کی شہزادیوں کا واسطہ اپنے فراق میں نڈھال مجھے نہ کر۔
اور دوسری قسم اشور جان سے بھی ایک گیت نمونے کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ ایک اشورجان جو رُستم سے منسوب ہے گیت کے بول یہ ہیں ۔
ای مشرقو وشکیار
ای مغربو وشکیار
اوشک گان گویان
ترجمہ:۔ مشرق اور مغرب کی طرف سے سرد ہوائیں چلتی ہیں (الزام اور تہمتیں مرادہیں)
ہردی جہل کوری قالب تھان دویان !
نصیب جہل کوراوموژ تو کھانج بویان!
ترجمہ:۔ اور دل ہے کہ مانتا نہیں۔ اور بدن ہے جو تکلیف خوشی سے سہ جاتا ہے!
اور نصیب ہے جو ساتھ نہیں دیتی اور وصل کی راہ میں حایل دیوار بنی ہوئی ہے۔
دوسرا دور یندرھویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں کہوارلوک ادب پر فارسی زبان ادب کا اثر ہوا۔ اس دور میں فارسی کے کئی نامور شعراء پیداء ہوئے۔ کئی رزمیہ گیت اور رومانی نغمے اسی دور سے وابسطہ ہیں۔ کہوار غزل کی ابتداء بھی اسی دور میں ہوئی۔ محمد شکور غریب اسی دور کا شاعر گزرا ہے۔ اُس نے ایک فارسی دیوان یادگار چھوڑی ہے۔ جس میں کہوار غزلیں بھی شامل ہیں۔ جو انھیں کہوار ادب کے باوا غزل ہونے کا اعزاز بخشتے ہیں۔ اُنکی غزل کے دو بند یہ ہیں ۔
تہ پھریشئو گیر چھوئے تہ موخ روشت انوس
تہ چھوئی انو سانتے غیروم چھوئی نوس ۔ ۔ ۔!
ترجمہ:۔ تیری زلفیں شب دیجور کی مانند اور چہرہ روز روشن کا عکس اور میں دن رات تیرے روز شب کے طواف میں لگا رہتاہوں۔
گہی درد تو دوسان گہی ویز کوروس
تہ دردو درمانتے غیروم چھوئے انوس
تیرا شیوا یہی ہی کہ اپنے طالب کو مجروح کرتی ہو اور کبھی دوا دیتی ہو۔ میں دن رات تیرے درد کا درمان ڈھونڈھتا رہتا ہوں۔
مرزا محمد سیر کا نام بھی اسی دور میں مشہور ہوا۔ کھوار کے اُدباء مرزامحمد سیرکو کھوار ادب کی تاریخ میں بہت بڑے نام کےطورپریاد کرتے ہیں۔ اُنکی تمام تر خوبیوں کو تسلیم کرنے کے باوجود مجھے مرزا محمد سیر سے ایک گلہ ضرور ہے کہ اُردو کے مشہور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب اور مرزا محمد سیر میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ غالب پوری زندگی فارسی شاعری کرتے رہے اور اُردو زبان کو بہت کم توجہ دی مگر اُسکے مرنے کے بعد اُسکی اردو شاعری کی وجہ سے ا ُسے جو شہرت ملی وہ بہت کم کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔ اسی طرح مرزا سیر نے بھی پور ی زندگی فارسی شاعری پہ صرف کی مگر مرزا سیر بطور فارسی شاعر بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا جبکہ چترالی زبان میں اُسکی تخلیق کردہ صرف ایک گیت ‘‘یارمن ہمین’’ ہے جسکی وجہ سے چترال کا بچہ بچہ اُسکے نام سے واقف ہیں۔ فارسی میں دیوان سیر اورشاہنامہ سیر یادگار ہیں ۔
مرزا سیار کے فارسی اور کہوار کلام کا نمونہ یہ ہیں
ائے کمتر از خروس چراغافلی زحق
پس از طلوع صبح تو بر خیزو آہ کن
ہر گز سیر مناز بہ طاعات خویشتن
طاعت کنی و تکیہ بہ لطف اللہ کُن (فارسی)
ترجمہ :۔ ائے مرغ سے بھی بدتر انسان تو حق سے غافل کیوں ہے صبح صادق کی نمود کے بعد اُٹھ جاو اور آہ کرو۔
ائے سیراپنی اطاعتوں پر ہر گزگھمنڈ نہ کر بلکہ عبادت کر اور اللہ تعالی ٰ کی مہربانیوں پر بھروسہ کر ۔
زومان سورین بغاتم پچ قونان موژین بغاتم
ذروخ ذروخ کیڑاو بغاتم اشروان مژاو بغاتم (کھوار)
ترجمہ :۔ بڑے بڑے پہاڑوں کو سرکیا انگاروں پر قدم رکھ کر تیرے عشق میں زارو زار روتا رہا اور دامن تارتار سے خون اشک پونچھتا رہا ،
متے کفن مو کورور مہ زیارتہ طوغ ریپھاور
مہ ژان ذروٹھی پزا کہ ہائے مہ بلبلو اھیی ریپھاور
میرے لاش کو کفنانے کی ضرورت نہیں۔ لباس شہادت میرا کفن ہے البتہ میری قبر پہ جھنڈیاں ہونی چاہیے جو میری شہادت کی نشانی ہو اور جب مجھ پہ جان کنی کا عالم طاری ہو تو میرے محبوب کوجگا کر اُسے بتایا جائے کہ
‘‘وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چُکا دیا ’’ (فیض)
ان کے علاوہ اس دور کے شعراء میں مُرید دستگیر، امان ، مشرف خان بروز اور حسین سے منسوب ایک رزمیہ گیت بھی مشہور ہیں ۔
تیسرا دوربیسوی صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں نامور شعراء پیدا ہوئے اور کھوا ر گیتوں کو نئے خیالات، نئی تراکیب اور ہجروغم کے نئے مضامین سے آشنا کیا۔ شیر ملک، ذیارت خان زیرک، گل اعظم خان، خدارحمت، شیرین اور غز ل کا شمار اس دور کے شعراء میں ہوتا ہے۔ شیرملک اور زیارت خان زیرک اس دور کے نمائیندہ شاعر ہیں۔ شیر ملک علاقہ موڑ کہو کا رہائیشی رومانوی شاعر تھا ۔
نمونہ کلام ۔
ہائے مہ نامیرو رویاں اوا بے وفا بیراتم
مہ ژان تن بطنہ زندہ ڈق کیہ رے خفا بیراتم
ہائے لوگو! مجھے کیا ہو گیا میں ہی بے وفا نکلا کیونکہ میرا محبوب میرے چشم تصور میں موجود ہے پھر بھی میں آرزدہ خاطر کیوں ہوں ؟
اور دوسری جگہ رقیب کو نکما ٹھرانے کی روایت کو ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں
کیہ نو ریم تہ موشوتے چھور وبہشٹہ مشرف
اسپہ کہوار کوریکوفارسی بند کو رونیان اعراف
میں رقیب کو بُرا نہیں کہو نگا وہ تو تیری وصل سے شاداب ہے اور ہمنشین حور ہونے کے حوالے سے مکین جنت برین ہے اور میں صر ف تیرے ایک تصورکے ساتھ نگاہ اُٹھا تا ہوں تو خود کو بمشکل اعراف میں پاتاہوں۔
اسی دور کا ایک اور شاعر زیارت خان زیرک کہوار ادب میں (سنوغروملنگ) کے نام سے بہت مشہور ہیں۔ اُن کے کلام میں دردوالم کے فسانے بھی ہیں۔ اور وطن کی محبت کے ترانے بھی ۔ ان کا جنم بُھومی سنوعز اُنکی خیالات کا مرکز ہے۔
جنت سنوغر اوغوچے میوائیے
سنو غرو ملنگ گدیری اوا
جنت نظیر سنوغر! خوبصورت ابشاروں اور پھلوں کی سرزمین ہے
میں اس خوبصورت گاوں کا ایسا درویش ہوں جو فراق یارمیں پاگل ہے
بلبل بوئیک تان چوڑیکار پھک کہ نو بسیر
دنیائی آرمان چھییسیر بریک کہ نو بسیر
کاش چہچہا تا بُلبل کبھی چپ نہ ہوتا۔ اور دنیا میں ہرایک کی آرزو برآتی اگر موت نہ ہوتی ۔
دوسری جگہ سنوغر کے بارے میں کہتے ہیں۔
چھور مس شکھور باشیران جو مسوتے سنو غرو قاعدہ
اوا بعا تم تو اسو سے ژان متے کیہ فائیدہ
سنوغر کا قاعدہ یہی ہے کہ یہاں دو مہینوں کیلئے چار مہینے تک چینی برستی ہے میری جان مجھے تو اسکا فائدہ ملنے والا نہیں کیونکہ میں تو راہی عدم ہوں، مطلب یہ ہے سنوغر میں توت کے درخت بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ جو موسم گرما میں چار مہینے تک پکتے ہیں جنھیں سکھا کر جمع کیا جاتا ہے اور موسم سرما کے دو مہینوں میں بطور خشک میوہ استعمال کیا جاتا ہے جو نہایت لذیذ ہوتے ہیں۔
بیسوی صدی کے نصف اول سے امیرگل امیر نے شاعری اور آواز کا جادو جگانا شروع کیا اور بیسوی صدی کے آخر عشرے تک حرف و آہنگ کے دنیا پر حکمرانی کی، امیر گل امیر کی جادوئی آواز کی وجہ سے عوام نے اُسے بلبل چترال کا لقب دیا، وہ بیک وقت شاعر، ستا ر نواز، موسیقار اور گلوکار بھی تھے ۔
نمونہ کلام ۔ امیر گل امیر
ائے حُسنو مالک تہ حُسنو ذکواتار مشکی ای درویش گیتی اسوم
اللہ دی ریران تو دیت مہ نامہ اوا کہ تہ تے دیتی اسوم
حقدار دی اوا حسنو ذاکوٰتو ہردئین معزور بیتی اسوم
ائے مالک حسن اپکی حُسن کے ذاکوٰۃ سے حصہ مانگنے ایک درویش آیا ہوا ہے اللہ تعالی کا بھی فرمان ہے کہ میرے بندے جو کچھ میں نے تجھے عطا کیا ہے اُسی میں سے میرے نام پر ذکواۃ ادا کیا کراور اس ذکواۃ کا حقدار بھی میں ہوں کیونکہ میں دل سے معزور ہوچکا ہوں،
امیر گل امیر کی غزل کے چند اشعار کچھ اسطرح ہیں۔
مجنو نو بھیسہ بیتی صحرا گردش کوریتاو
کورا کنغانو چہا یوسفو چستیو سوم جُستت
سکندا ر وچہ فوجِ خضر و چے دریا ہو موج
آبِ حیات کورہ لین بوئے ظلمتو ووریوسوم جُست
تکلیف عشقو راہا حقو منظوریو سوم جُست
عشق کبھی مجنون کی شکل میں صحرا نورد ہوتا ہے اور کبھی حضرت یوسف کے بھیسں میں کنویں کے اندر جلوہ گر اور کبھی سکندر، حضرت خضر معہ لاولشکر سمندر کے موجوں کی رَمز شُناسی کرتے ہوئے متلاشی آب حیات ۔۔۔ اور آب حیات تو ظلمت کی دوریوں میں پوشیدہ ہے۔ یہ نا کامی اور مصائیب و آلام قسام ازل سے عشق کے نصیب میں لکھے ہوئے ہیں ۔
ادبیات چترال کا چو تھا دور 1950ءسے شروع ہوتا ہے اس دور نے کھوار کو ریڈیائی لہروں سے آشنا کیا اس دور میں کہوار زیور طبع سے آراستہ ہوئی چنانچہ ادبیات چترال کے ارتقاء میں اس دور کو سنگ میل کی حثیت حاصل ہے ۔ کہوار نظم یا شاعری نے اس دور میں بہت زیادہ ترقی کی البتہ کہوار نثر میں ابھی تک جو کام ہوا ہے وہ اتنی زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔
جن نثرنگاروں نے اس دور میں کھوار ادب کی خدمت کی اُن میں پروفیسر اسرار الدین ،ولی زارخان ولی ،گل مراد خان حسرت، گل نوارخاکی، شہزادہ حسام الملک ، شہزادہ صمام الملک ، غلام عمر، امین الرحمن چغتائی، ناجی خان ناجی، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، محمد عرفان عرفان، شیرولی خان اسیر، علاوالدین صابر، اقبال الدین سحر، پروفیسرمولانا نقیب للہ رازی، چنگیز خان طریقی، رحمت اکبر خان رحمت، قاری بزرگ شاہ الازہری جاوید حیات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اُن میں سے شہزادہ صمام الملک نے کھوار سیرات النبی لکھی اور مولانا بقیب اللہ رازی نے کھوار قاعدہ اور ناجی خان ناجی نے کھوار لغت ترتیب دی جو زیادہ قابل زکر ہیں ۔اور اب چونکہ نوجوان طبقے کا رجحان نظم کے ساتھ ساتھ نثر کی طرف بھی ہے۔ اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں کھوار نثر بھی ترقی کی ساری منزلیں طے کرے گا۔
کھوار شعری ادب نے اس زمانے میں کافی ترقی کی۔ اس طبقے نے کھوار نظم و غزل کے دامن کو فصاحت وبلاغت اور صنائیع وبدائیع کے انمول موتیو ں سے مالا مال کیا۔ اس دور کے شعراء میں مرزافردوس فردوسی، مولانا باچا ہما، مولانا حبیب اللہ فدا (برنسوی ) بابا ایوب،صاحب اللٰھ اسراء، شہزادہ عزیز الرحمٰن بیغش، ولی زار خان ولی، امین الرحمٰن چغتائی، شہزادہ حسام الملک، پروفیسر اسرارالدین، رحمت اکبر خان رحمت، گل مراد خان حسرت، امیر خان میر، محمد ناجی خان ناجی ، شیر ولی خان اسیر، گل نواز خاکی، محمد چنگیر خان طریقی،عنایت اللہ چشتی صابری، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ،عبدلولی خان عابد، کرم لٰہی کرم، شیر نواز خان نسیم ، تاج محمد فگار، عبدالغنی خان دول، اقبال الدین سحر، فداوالرحمٰن فدا مبارک خان مبارک محمد اکبر ناچار قابل ذکر ہیں ۔
نمونہ کلام مرزا فردوس فردوسی ۔
دنیوں سوم جستہ عشق اژی گیتی شیر یہ ھنون نکی
قیس اشوئے لیلو دیوانہ اوا تہ کیہ خور مجنون نکی
تہ عشقو دربارا کا غمژونی کا بے غم کیہ ازبون نکی
عشق دنیا کے ساتھ وجود میں آیا ہے قیس لیلیٰ کا دیوانہ تھا میں تیرا دلدادہ ہوں ہم دو ہی مجنون ٹھرے تیرے دربار حسن میں عاشق صادق اور بو لہوس کی کوئی تمیز نہیں، کوئی غموں میں ڈوبا ہوا تو کوئی دنیا و مافیھا کے غموں سے بے خبر
ولی زار خان ولی۔
بوا سونی چست دنیائی ھتوغو انداز خور
ھتے نا زنین پریو حُسنو سورا ناز خور
کہوارنیوشیکان تعداد کافی ہوئی زیادلیکن
ولیو فکرو بلندی خیا لان پرواز خُور
دنیا میں حسین تو بہت ہیں مگر میرے محبوب کا انداز سب سے جدا ہے اُس پر ی پیکر نازنین کا اپنے حُسن پہ ناز کا انداز بھی مختلف ہے۔ کہوار میں لکھنے والوں اور شاعروں کی تعداد کافی زیادہ ہوگئی ہے مگر ولی کے فکر کی گہرائی او خیالوں کی دنیا سب سے مختلف ہے۔
شہزادہ عزیز الرحمٰن بیغش۔
مہ خوش اپو پار کھشی چُٹ دیکو شیلی مخی
ارمان کورومان ائے کاش کہ بیسام پوروا اوا
جب میرا محبوب پورو (دیسی لوشن ) اپنے خوبصورت چہرے پہ لگاتی ہے تو دل میں یہ حسرت رہتی ہے کہ کاش میں اُس لوشن کا حصہ ہوتا تو اپنے محبوب کے خوبصورت چہرے کی طواف کی نعمت سے محروم نہ رہتا۔
رحمت اکبر خان رحمت
قدروقسمت کم بہچورزمانہ نا ساز کہ ہوئے
وا وُو یِژونو قیمت یوسفِ کنعان بکو لو
لیلیٰ مشیکیتائے لیے ازمائیشہ گران جوشی
قالیپولیے مجنونونزدا سفو سار ارزان بکو لو
کہتے ہیں زمانہ نا ساز گار ہو تو انسان کی قدروقیمت کم رہ جاتی ہے کیونکہ بازار مصر میں یوسف کنعان کا خریدار بن کر بڑھیا اُون لے کے آتی ہے اور دوسری طرف دیکھو لیلیٰ سب سے مہنگا سمجھ کر مجنون سے خون بھیجنے کا تقاضا کرتی ہے مگر مجنون کے بزدیک لیلیٰ کیلئے رگوں میں دوڑتا ہوا خون بھی سب سے سستا تھا۔
0 Comments