تورکہویچی، ڈپٹی کمشنر ، ثریا بی بی افیشیل ، ایکسن، منشی وغیرہ
تورکہو روڈ کس طرح بیوروکریسی کی سرخ فیتے کا شکار رہا اس پر کل تفصیل سے لکھا تھا۔ رات دو بجے تک میں اس سارے قضیے میں تب تک ہونے والی تمام اقدامات کو سامنے رکھ کر ضلقی انتظامیہ کی تاخیری حربوں کو سب کچھ سمجھتا رہا۔ مگر کچھ تورکہویچیوں کے کمنٹس اور بونی چوک میں تقاریر نے نیے زاویے سے دیکھنے پر مجبور کیا۔
رات دو بجے ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میں تورکہو تریچ روڈ فورم کے لیڈران کی تقریر اور انکشافات نے میرے اوساں خطا کردیے۔ وقاص احمد ایڈوکیٹ نے لگی لپٹی رکھے بعیر ضلعی انتظامیہ کے سربراہ کی موجودگی میں کہہ دیا کہ فورم کو ضلعی انتظامیہ سے کوئی شکوہ نہیں بلکہ خلوص نیت سے کوشش کرنے پر دل و جان سے شکریہ آدا کرتے ہیں۔ انہوں نے کھل کر کہا کہ فورم جانتی ہے کہ ضلعی انتظامیہ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے مجبور ہے اور ان پر پریشر ڈالا جارہا ہے۔ وکیل صاحب کا کہنا تھا کہ فورم کے گروپ کے پاس وہ تمام ثبوت موجود ہیں کہ کس طرح ایک جونیر کلرک کو ڈپٹی اسپیکر نے ایکسن لگادیا ہے جو اتنا طاقتور ہے کہ وہ ضلعی سربراہ کے فون کالز تک اٹینڈ نہیں کرتا۔ اس تقریر میں فورم کی وزیر سی اینڈ ڈبلیو سے ملاقات ، وزیر کے وائس اور ٹکسٹ میجز کی موجودگی کا دعوی کیا گیا کہ وزیر سہیل افریدی نے کہا ہے کہ جب تک ڈپٹی اسپیکر نہیں چاہتی وہ ایکسن کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔مزے کی بات یہ ہے کہ ضلعی سربراہ نے ان باتوں کی تردید نہیں کی۔
یاد رہے کہ تورکہو تحریک فورم والے تورکہو سے روانگی سے پہلے چند افراد کے خلاف کرپشن اور وعدہ خلافی پر ایف آئی ار کرنا چاہتے تھے۔ بونی پہنچ کر بھی فورم کا یہ مطالبہ برقرار رہا کہ ان چار افراد کو بلاکر ان سے پوچھا جائے کہ ہمارے ساتھ یہ ظلم کیوں ہورہا ہے۔ مگر پوری رات ضلعی انتظامیہ ان اہلکاروں سے رابطہ تک نہ کرسکا۔ ٹھیکدار یا ایس ڈی او سی اینڈ ڈبلیو اپر چترال تو کجا ضلعی حکومت ۲۴ گھنٹوں تک ٹھیکدار کے منشی اور ایکسن سی اینڈ ڈبلیو تک کا پتہ نہ لگاسکی جو فورم کے مطابق اس قضیے کے مرکزی کردار ہیں۔
ضلعی انتظامیہ اور تورکہو فورم ان چاروں کو ڈھونڈنے میں مصروف تھی کہ اچانک یہ سب "ثریا بی بی افیشل" میں دیکھے گیے۔ دیکھنے بلکہ لکھنے میں آٰیا کہ ڈپٹی اسپیکر نے ان چاروں کی سرزنش کی جو ان کے سامنے بیٹھے تھے۔ ڈپٹی صاحبہ نے کام کی سست رفتاری پر برہمی کا بھی اظہار کیا۔ ایم این اے کا موڈ بھی خراب دیکھا گیا جبکہ اپر چترال کے پارٹی صدر کو ضروری احکامات لکھتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ تورکہو ریچ فورم کے یہ مطلوب مبینہ ملزماں راتوں رات ڈپٹی اسپیکر کے چمبر کیسے پہنچے ، ضلعی انتظامیہ منشی کے سامنے اس قدر لاچار کیوں تھا، ایکسن کی اس حد تک پشت پناہی کیوں ہو رہی ہے اور کام ہونے سے پہلے کروڑوں روپے ٹھیکدار کو کیسے ملے۔ کسی کا حصہ اس میں تھا یا نہیں یہ تمام سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔
جب یہ چار مطلوب افراد ثریا بی بی افیشل میں ملے تو میں نے سوچا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اسے پہلے بھی برہمی کا اظہار کیا ہوگا یا پھر ہوسکتا ہے یہ افراد جس طرح ہمارے ضلعی انتظامیہ کو خاطر میں نہیں لاتے ہماری ڈپٹی اسپیکر بھی مجبور ہو۔ تو میں جس طرح کل کی تحریر لکھنے کے لیے میں عمیر خلیل اور چند اور نوجوانوں کے وال کھنگالے تھے آج وہی میں "ثریا بی بی افیشیل" کے ساتھ کیا۔ میں وال کھنگال کر اس دن تک گیا جس دن تورکہو روڈ کے حوالے سے عوام پہلی بار بڑی تعداد میں نکلے تھے یعنی 18 ستمبر کو۔ پھر فورم بنتی ہے معاہدہ ہوتا ہے جس کی پاسداری نہ ہونے پر جلسے جلوس، فیس بکی ہنگامہ اور پھر ایک مہینے تک روزانہ کوئی نہ کوئی کارنر میٹنگ۔ اس پورے دورانیے میں "ثریا بی بی افیشل" کی طرف سے تورکہو روڈ کے حوالے ایک بھی پوسٹ یا حکم نامہ نہیں ملا۔ یہ نہیں کہ اس دوران پیج ان اکٹیو تھی بہت کچھ ملا بھی جیسا کہ "جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا" "ہم نہیں تو کون" "میں جھکا نہیں میں بکا نہیں" "چلو چلو اسلام آباد چلو" "کراچی میں چینی حکام کے قتل پر رنجیدہ" "میرا وزیر اعلی کہاں ہے" وغیرہ نوعیت کے پوسٹس۔۔۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یکم اکتوبر سے 7 اکتوبر تک جب تورکہو عوام سراپا احتجاج تھے تو ڈپٹی صاحبہ کے فیس بک پیج سے کل 28 پوسٹ کیے گیے ہیں جن میں سے 26 اسلام آباد کی طرف نکلنے کی یا تو دعوت تھیں یا روداد۔ ایک پوسٹ میں چایئنز کی موت پر اظہار افسوس تھا جکہ صرف ایک پوسٹ تورکہو سے متعلق تھی میرا مطلب ایک پوسٹ میں مارخور کے سینگوں سے بنی انگوٹھیاں تھیں۔
18 ستمبر یعنی تورکہو تحریک کے آغاز سے لیکر آج تک 110 پوسٹ ہوئے ہیں جن میں کہیں بھی تورکہو والوں کے رُلنے کا ذکر نہیں۔ کام کی سست رفتاری کا نوٹس نہیں ، ایکسن وغیرہ کی سرزنش نہیں۔ مکمل سکوت اور بے خبری ہے۔۔۔۔ اور آج سارے کرداروں کو سامنے بیٹھا کر سرزنش کرکے فیس بک پر چڑھا دیا گیا تو تورکہو والوں کو تورکہوچی وار سمجھ آگیئ۔ کمنٹ میں "مسلح" افراد گھس گیے تو کمنٹ سیکشن بند کرنا پڑا۔
مگر فیس بک میں بول کر اختلاف کرنا ہی ضروری نہیں ہوتا کچھ ایموجیز تو لمبی چوڑی تحاریر سے زیادہ طاقتور ہیں اگر بروقت استعمال ہو۔ یہی ہوا۔ اور اب تک اس پوسٹ پر ری ایکشن دینے والے 344 میں 153 کی ہنسی نکل گئی ہے ،39 نے غصے کا اظہار کیا ہے, 2 رو رہے ہیں جبکہ 5نے "اووووو" کہا ہے یعنی کے کل ملاکر عوام نے دو تہائی اکثریت سے اس پوسٹ کو مسترد کردیا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر کو تورکہویچوں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے کیا کرنا ہے وہ میڈیم ڈپٹی اسپیکر ہم سب سے بہتر جانتی ہے۔ پھر بھی اگر میرے منہ سے سننا ہے تو ایکسن کی تقریری میں اپنا کردار اور وقت سے پہلے ٹھیکدار کو ادایئگی بابت اپنا موقف دینا چاہیے۔
یاد رہے کہ اپنی وال پر کمنٹ سیکشن بند کرنا مسلے کا حل ہے اور نہ اس حرکت اور اسلام آباد میں کنٹینر لگانے میں کوئی فرق۔ علاج ہر دو کا ویسے بھی عوام کے پاس موجود ہے۔
وما علینا الی البلاع
0 Comments