اقراء ایوارڈ 

نثار احمد 






اقراء ایوارڈ تقریب آج گورنمنٹ کامرس کالج چترال میں منعقد ہوئی۔ تقریب میں ڈی سی چترال سمیت مختلف طبقہائے فکر اور شعبہائے زندگی کے افراد شریک ہوئے ۔ پیشہ ورانہ مجبوری کی وجہ سے بروقت تقریب میں پہنچنے سے قاصر رہا بہرحال لیٹ ضرور ہوا تاہم شرکت سے محروم پھر بھی نہیں ہوا۔ دیگر معمول کی تقریبات کے برعکس یہ تقریب اہم بھی تھی اور منفرد بھی۔ اہم اس لیے کہ یہ تقریب سکول کے ان بچوں بچیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تھی جو اپنی محنت کے بل بوتے پر امسال میٹرک کے امتحان میں فرسٹ ، سکنڈ اور تھرڈ پوزیشنز پر براجمان ہوئے ہیں منفرد اس لیے کہ یہ تقریب ایک ایسے شخص کی کاوشوں کی نتیجہ تھی جس کی اپنی تعلیم سکولوں کی نہیں،  مدرسوں کی ہے۔ جس شخص کی الف یا ی ساری ایجوکیشن مدرسے کی ہو اس کی طرف سکول کے بچوں بچیوں کے لیے ستائشی تقریب کا انعقاد بلاشبہ  اسے ایک منفرد رنگ عطا کرتا ہے۔ 

 2003 سے چلی آنے والی اس اقراء ایوارڈ تقریب میں سرکاری اور پرائیوٹ سکولوں کے ضلعی پوزیشن ہولڈرز کو تحسینی ایوارڈ بھی دیا جاتا ہے اور نقد انعامات بھی۔ انعام کی رقم پوزیشن ہولڈرز میں اس ترتیب سے بانٹا جاتا ہے کہ پہلی پوزیشن والے کو 50 ہزار ، دوسری والے کو 40 ہزار اور تیسری والی کو 30 ہزار دیا جاتا ہے پھر اس میں ایک کیٹیگری گورنمنٹ سکولوں کی ہوتی ہے اور دوسری کیٹگری پرائیوٹ سکولوں کی۔ کل ملا کر دونوں کیٹیگریز کے 6 طلبہ و طالبات انعام کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ کیلاش کیٹگری کو ملانے کے بعد انعام یافتگان کی تعداد 7 بنتی ہے۔

گوکہ یہ انعامی رقم اس ہوشربا مہنگائی کے دور میں ایک طالب علم کے جملہ تعلیمی اخراجات کے لیے ناکافی ہے تاہم اس سے اتنا ہوتا ہے کہ ایک متوسط آمدنی والے بچے کے من میں  اچھے کالج میں داخلہ لینے اور آگے پڑھنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ کتنے طلبا و طالبات ایسے  ہیں جن کے لیے اس انعام نے مہمیز کا کام کیا ہے۔  اس سے بھی بڑی بات یہ کہ اس سے بچوں کی ٹھیک ٹھاک حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اس حوصلہ افزائی کے نتیجے میں دیگر طلبا و طالبات میں بھی محنت کا شوق پیدا ہوتا ہے۔

آج کے پروگرام کے انگ انگ سے جہاں ایک طرف قاری فیض اللہ صاحب کا خلوص ٹپک رہا تھا وہاں دوسری طرف اس کے لمحے لمحے سے قاری صاحب کے معتمدِ خاص جناب خطیب صاحب (مولانا خلیق الزمان کاکاخیل) کا حسنِ انتظام بھی چھلک رہا تھا۔ خطیب صاحب نے گویا چترال کے نمایاں اور خوبصورت پھولوں کو اس پروگرام کی صورت میں ایک لڑی میں پرویا تھا۔ منظر کچھ یوں تھا۔

 مہمان خصوصی کی کرسی پر تشریف فرما یہ ڈپٹی کمشنر چترال ہیں چہرے سے انتہائی معصوم اور ناز و ادا سے انتہائی دلچسپ شخصیت لگتے ہیں۔ مسند صدارت پر فائز یہ محمود غزنوی  (ڈی ای او لوئر) ہیں ایک سیدھے سادے اور کھرے مسلمان ایجوکیشن افیسر۔ 

دیگر شرکاء  میں یہ ایس ڈی ای او شہزاد ندیم اور اے ڈی ای او انعام اللہ ہیں۔ محکمہء تعلیم کے انتہائی قابل، خوش مزاج اور باصلاحیت افسران ۔  یہ کامرس کالج کے پرنسپل پروفیسر صاحب الدین ہیں۔ ایک طرف اگر پیکر ِ متانت ہیں تو دوسری طرف خوگرِ عاجزی بھی ہیں۔

یہ قتیبہ پبلک سکول کے پرنسپل اخلاق الدین قاضی ہیں جنہوں نے پلک جھپکنے میں قتیبہ پبلک سکول کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ جو اپنی ذات میں حقیقی معنوں میں پوری ایک ٹیم ہیں۔ یہ سینٹینئل سکول پرنسپل شاہد جلال اور جی ایچ ایس ایس موری  کے وائس پرنسپل سید الابرار ہیں۔ دونوں کو ان کی قابلیت ، فرض شناسی اور احساس زمہ داری کی وجہ سے محکمہء تعلیم میں انتہائی اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔  یہ ظہور الحق دانش ہے اپنے تخلص کے بموجب بحرِ  علم و دانش۔ یہ وجیہہ الدین ہیں جماعت اسلامی کے نئے نویلے پرعزم  امیر۔ جن کے بارے یقین یہی ہے کہ چترال میں رو بہ زوال جماعت  اسلامی کو ایک بڑی جماعت بنا کر چھوڑیں گے۔ یہ قاری عبد الرحمن قریشی ہیں بالخصوص ان کی قرانی خدمات  اوراق کے اوراق کالے کرنے کے متقاضی ہیں۔ یہ پریس کلب کے صدر ظہیر الدین ہیں جن کی سربراہی میں چترال کے صحافیوں نے نامساعد حالات کے باوجود چترال میں زمہ درانہ صحافت کا بھرم قائم رکھا ہوا ہے۔ یہاں بلند دعوے نہیں،  مقررین کے مختصر خوبصورت بیانات ہوئے ۔

ڈپٹی کمشنر محسن اقبال نے اپنے خطاب میں قاری فیض اللہ صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد چترال کے اساتذہ کو بہترین اساتذہ قرار دے کر یہاں کے طلبہ و طالبات کو خوش قسمت بتایا کہ انہیں ایسے اچھے اساتذہ میسر ہیں۔

ڈی ای او محمود غزنوی نے تعلیم کے فروغ اور طالب علموں کی سرپرستی کے لیے  دیگر اہل ِ ثروت کو بھی قاری فیض اللہ صاحب کے نقش قدم پر چلنے کی دعوت دی۔  امیر جے یو آئی مولانا عبد الرحمن نے قاری فیض اللہ چترالی کو  ایک انجمن اور تحریک قرار دے کر ان کی خدمات کا اجمالی تذکرہ پیش کیا۔ 

امیر جماعت اسلامی وجیہہ الدین نے قاری صاحب کو سلام پیش کرتے ہوئے ملا اور مسٹر میں تفریق کے خاتمے میں آپ کے کردار کو سراہا ۔ 

چترال یونیورسٹی کے لیکچرار ظہور الحق دانش نے قاری صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد نوجوانوں کو ہنرمند بنانے اور اسکلڈ یوتھ پیدا کرنے کے لیے منظم کوشش پر زور دیا۔ 

یوں سنوغور کی سیما سید، کوغوزی کے ثناء اللہ، بلچ کے جنید احمد ، دنین کی تسکین قیوم ، لینگ لینڈ کی ہما سید ، ایون کے سید مسعود اور بریر کی روبینہ بی بی کے اعزاز میں سجائی گئی یہ تقریب مولانا عبد الرحمن کے دعائیہ کلمات سے انجام پذیر ہوئی۔