قول و فعل میں کھلا تضاد

امان اللہ خان ایوبی 






 پاکستان تحریک انصاف سے 2018 کو اقتدار میں آئی تو بے شمار انقلابی نعرے سننے کو ملے۔ جیسے فرسودہ اور دقیانوسی نظام حکومت سے چھٹکارہ، رشوت اور بدعنوانی کی عفریت سے نجات، ملک میں دس ارب درختوں کا اضافہ، تین سو ڈیم جن سے نکلنے والی نہریں صحراۓ چولستان اور تھر پارکر کو لہلہاتے کھیتوں کو کا روپ دیں گی، پچاس لاکھ گھر، بے روز گاروں کیلئے دو کروڑ ملازمتیں، نئی یونیورسٹیاں، سمندر میں تیل کی تلاش، سیاحت کو فروع، میرٹو کریسی کا قیام، بڑے بڑے ترقیاتی ممالک جیسے امریکہ چین اور برطانیہ کے انداز حکمرانی کو متعارف کرنا اور ساتھ مدینے کی ریاست وغیرہ وغیرہ


یہ تمام وعدے پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ تھے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کے ستاۓ اور دہائیوں سے مانوس سیاستدانوں کی اقربا پروری، اور بدعنوانی جھیلتے عوام نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دیوانہ وار خان کی پارٹی کا حصہ بنتے گئے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ پی ٹی آئی کی تیزی سے مقبولیت کی بڑی وجوہات میں سوشل میڈیا کا کلیدی کردار ہی تھا جس کے ذریعے اس نئی پارٹی کی مارکیٹنگ کی گئی۔ مقتدر حلقوں کی آشیرباد، خود خان صاحب کے وجیہ خد و خال، چال ڈھال، انداز بیان، طرز تخاطب، مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نرگسیت، بار بار جھوٹ بولنے اور جھوٹ کو سچ کا لیبل لگانے کا ہنر انہیں نواز شریف اور زرداری کے مقابلے گویا کوئی انمول ہیرا ثابت کرنے کے لئے کافی تھے۔ اس کے علاؤہ روایتی جلسوں کی بجاۓ مخلوط جلسوں میں ناچ گانے اور برملا جنسی اختلاط نے گھٹن کا شکار نوجوانوں کو اپنا مسیحا بس خان ہی میں نظر آنے لگا۔ سوا سو دنوں تک دھرنوں کے دوران وقوع پزیر ہونے والے واقعات اور حکومت کی بے بسی نے گویا پی ٹی آئی کو ناقابل تسخیر ہی بنادیا۔ البتہ ان لوگوں کی تعداد بہت کم تھی جو ان سب کو کٹھ پتلی تماشہ سمجھتے تھے انہیں مختلف مقامات سے ہلاۓ جانے والے ڈور بھی معلوم تھے۔ بعض سیاستدانوں کو اپنی سیاسی ناؤ اس سونامی کی بے رحم لہروں میں ہچکولے کھاتے نظر آنے لگی تھی۔ کچھ لوگ حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد کی پیشگوئیوں کو سچ ہوتے دیکھ رہے تھے۔


حکومت سنبھالے کے بعد لوگ انتظار کرتے رہے۔ مہینے اور سال گزرتے گئے۔ ملک میں رشوت، سفارش، بے روزگاری، لا قانونیت، کرپشن، اقربا پروری، مہنگائی میں روز افزوں اضافی ہوتا گیا۔ دہشت گردوں کی حکومتی سطح پر سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جانے لگی۔ گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے عوام عاجز آگئے۔ ادویات کی قیمتیں پانچ سو فیصد بڑھادی گئیں۔ گوگی، پیرنی اور وسیم اکرم پلس کے چرچے ہونے لگے۔ کاشانہ کی یتیم بچیاں مبینہ طور جنسی تسکین اور جادو ٹونے کیلئے زمان پارک اور بنی گالا لائی جاتی رہیں پھر کبھی واپس نہیں آئیں۔ مالم جبہ، بی آر ٹی پشاور اور سونامی ٹریز کے کرپشن کی داستانیں بننے لگیں۔ صنعت کا پہیہ بیٹھ گیا۔ ڈالر اڑھائی سو کا ہوگیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو پر لگ گئے۔ کوئی نئی یونیورسٹی نہیں بنی۔ سی پیک بند ہوا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کئے گئے پھر ان کی خلاف ورزی کی گئی۔ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکیہ جیسے پاکستان کے قابل بھروسہ دوست ممالک کو متنفر کیا گیا۔ یوں پاکستان دیوالیہ پن کے بالکل دھانے تک پہنچ گیا۔ تب جاکے پاکستانیوں کو حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد کی پیشگوئیوں کی صداقت کا احساس ہوا اور جیسے تیسے کرکے اس پارٹی کو ہمارے صوبے محدود کیا جاسکا۔ نو مئی 2022 کو پورے ملک آگ لگانے کی کوشش کی گئی جس کی پاداش میں سینکڑوں دوسرے ملزمان کے ساتھ ساتھ ماسٹر مائنڈ بھی پابند سلاسل ہیں۔ ان پر دسیوں دوسرے خطرناک جرائم کے الزامات ہیں۔ کئی ایک میں ضمانتیں ہو چکی ہیں اور درجن بھر میں گرفتار ہیں۔ یہی وجہ ہئے کہ آۓ روز پہلی دوسری اور آخری کال کھیل رہے ہیں پر یہاں بھی وہی کھلا تضاد۔۔۔ اپنے بچے لندن میں اور دوسروں کے بچوں کو میدان میں اتار رہے ہیں۔ اپنی بچی لندن میں اور دوسروں کی بچیوں کو ڈی چوک اور سبزی منڈی میں نچا رہے ہیں۔ اپنی بیوی پردے میں اور دوسروں کی بیویوں کی ایسی کی تیسی۔ خود کی بیوی گھریلو خاتون مگر ایم این ایز اور ایم پی ایز کو احکامات جاری کرتی ہئے اور پارٹی پر قبضہ کئے ہوۓ ہئے۔