مقامی زبان میں تعلیم
تمام ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ نو وارد بچوں کی تعلیم کی ابتدا ان کی مادری زبانوں سے کی جانی چاہئے۔ کیوں کہ چھوٹے بچوں کے پاس مادری زبان میں الفاظ کا ذخیرہ کسی حد تک پہلے سے موجود ہوتا ہئے اور انہیں آس پاس موجود مانوس چیزوں کے نام بھی یقینأ آرہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کے سیکھنے کے عمل کو درست سمت آگے بڑھانا آسان ہوتا ہئے۔
اس ضمن میں مختلف دلائل بھی دئیے جاتے ہیں۔ جیسے کہ چین، جاپان اور روس نے بدیشی زبانوں کو دیس نکالا دیا اور اپنے نونہالوں کو ان کی مادری زبانوں میں تعلیم دی اور آج وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس سلسلے میں چین کے صدر آنجہانی ماؤ زے تنگ کی نسبت سے ایک مشہور کہاوت بطور حوالہ پیش کی جاتی ہئے جس میں انگریزی زبان میں بات نہ کرنے کے دفاع میں انہوں نے کہا تھا کہ " چین گونگا نہیں ہئے" یعنی چینیوں کی اپنی زباں ہئے اور وہ اپنی زبان ہی میں بات کریں گے۔ واللہ اعلم۔
ہمارے یہاں قومی یا علاقائی زبانوں میں بچوں کو تعلیم دینے کے حوالے سے جو کچھ کہا جارہا ہئے اس میں جانے انجانے میں کچھ کچھ تعصب اور انگریزی زبان سے نفرت کی بو آرہی ہوتی ہئے۔ کیونکہ انگریزی ان اقوام کی زبان ہئے جن کی ہم نے غلامی برداشت کی۔ انہوں نے ہم پر صدیوں مظالم کے پہاڑ توڑے۔ وہ ہندوستان سے سونا اور ہیرے جواہرات لوٹ کے لے گئے۔ وغیرہ۔ انگریزی چونکہ ان کی زبان ہئے اس لئے ہمیں انگریزی سے نفرت ہئے۔ اور ہم انگریزی کی افادیت، آفاقیت اور عصر حاضر میں اس کی ضرورت کے بارے میں بھی سننا گوارہ نہیں کرتے۔ بقول کسے۔
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو۔
رہا سوال ان ممالک کا جنہوں نے انگریزی کے مقابلے میں اپنی زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ دیا اور قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی زمہ داری اپنے ہی ماہرین لسانیات و تعلیم کو سونپ دی۔ اور سالوں پر محیط تحقیق کے بعد ان ماہرین نے اپنی زبان کو مستقبل کے تقاضوں اور ضرورتوں کے سانچے میں ڈال کر اسے اس جوگا بنادیا جس سے ان کی آنے والی نسلوں کو تعلیمی میدان میں تشنگی کا احساس نہ ہو۔ ان کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں استعمال ہونے والے لاکھوں کروڑوں اوزاروں، ہتھیاروں، مشینی پرزوں کے نام، سائنسی علوم مثلأ ریاضی، طبیعیات، کیمیا، معاشیات اور حیاتیات کے ہزاروں لاکھوں اصطلاحات کیلئے پھر بدیسی زبان کے دست نگر نہ ہونا پڑے اور بلا شبہ ان کو کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کیوں موجدین اور محققین ان کے اپنے تھے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سارے فارمولے ان کے اپنے تھے۔ جہاں جہاں دوسری زبانوں سے کچھ مستعار لینے کی ضرورت پڑی انہوں نے کمال مہارت سے ایسے الفاظ کو اپنی زبان کے اندر کھپادیا۔ یا پھر چین کو اپنے آنجہانی رہنما کی دبنگ کہاوت کو واپس لے کر جابجا انگریزی سکول کھولنے پڑے۔ ( بحوالۂ چین بہ جبین۔۔۔ از ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی)
جہاں تک ہمارے یہاں کے نظام ہاۓ تعلیم کا تعلق ہئے یہ اپنے آپ میں ایک غیر مجسم عجوبہ ہئے۔ کہیں مذہب کے نام پر لاکھوں تعلیمی ادارے عربی اور اردو کے اختلاط سے بیک وقت حکومت اور حریف مکاتب فکر سے بر سر پیکار ہیں کہیں نونہالوں کو مستقبل میں فوج، پولیس اور دیگر اداروں میں کھپانے اور سماجی ذمے داریاں سونپنے کی خاطر انہیں واجبی تعلیم دینے کیلئے سرکاری سکول کھولے گئے ہیں جہاں کتابیں اتنی ذیادہ ہیں کہ بچے کتابوں کے بوجھ تلے دبے نظر آتے ہیں اور بیک وقت تین تین زبانیں سیکھنا پڑتی ہیں۔
تیسری قسم میں مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بچوں کیلئے گلی گلی پرائیویٹ تعلیمی ادارے کھلے نظر آتے ہیں جن میں انگریزی زبان میں تعلیم کے نام پر لوگوں کو لوٹا جاتا ہئے۔ اور بچے تو انگریزی سیکھنے سے رہے لیکن والدیں بچوں کی فیسوں کا تزکرہ اپنوں کے سامنے کرتے ہوۓ ذرا تن ضرور جاتے ہیں۔
ہمارے یہاں چوتھی قسم ان سکولوں کی ہئے جو ذرا کم درجے کے اشرافیہ کے بچوں کو پڑھانے کیلئے قائم ہیں ان سکولوں میں انگریزی زبان کو میڈیم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہئے۔ ان سکولوں کا سلیبس کچھ کھچڑی نما ہوتا ہئے یعنی کچھ کتابیں یہاں کی کچھ وہاں کی۔ والدین اساتذہ کی دلیلیں سن کر خوش اور ادارے ان سے بھاری بھر کم پیسے کماکر خوش۔ اور بچے ظاہر ہئے محنت کی بنیاد پر اکثر عملی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔
آخر میں ان اداروں کا نام آتا ہئے جو سب سے اوپر والی ایلیٹ کلاس کے بچوں کے لئے مختص ہیں۔ ان کا معیار واقعی بین الاقوامی لیول کا ہوتا ہئے۔ یہاں سے حکمران اور بڑے بڑے بیوروکریٹ نکلتے ہیں گویا یہی لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی والوں کی سوچ سے آگے بڑھتے ہیں اور بادی النظر میں یہی ہمارے پرانے آقاؤں کے وارث ہیں۔
آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کیا اتنے سارے مختلف النوع اداروں سے نکلنے والے ہم خیال ہوسکتے ہیں یا کیا ان ساروں کو ایک نصاب، ایک زبان اور ایک سلیبس پر متفق کیا جاسکتا ہئے؟ یقینأ آپ سب کا جواب نفی میں ہوگا۔ ہاں! مسولینی، یوسف سٹالین، ماؤ زے تنگ یا پھر سوئیکارنو, جمال عبد الناصر اور مصطفے کمال اتا ترک اگر یہاں بھی اگاۓ جائیں تو شاید یہ توقع کی جاسکے گی۔
اب آتے ہیں ہمارے سرکاری سکولوں کی طرف۔ یہاں انگریزی اپنی جگہ اردو بھی نوے فیصد بچوں کی سیکنڈ لینگوچ ہئے۔ اور اساتذہ ماشااللہ اردو پڑھا نہیں سکتے۔ اگر ورکشاپ اور تربیت گاہوں میں کچھ نئے اسلوب سکھاۓ بھی جائیں تو ان پر سکولوں میں عمل درآمد نہیں ہوتا۔ انگریزی لازمی مضمون ہئے لیکن ٹھیک سے پڑھائی نہیں جاتی۔ بس ایک سٹیٹس کو کا ماحول ہئے کہ بدلنے کا نام نہیں لیتا۔ اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کی وقعت اتنی ہئے کہ ان کے ذریعے کھٹی میٹھی باتیں کی جاسکتی ہیں۔ شعر و شاعری کی جاسکتی ہئے لیکن ان میں کیمسٹری، فزکس، بیا لوجی، میتھیمیٹکس میں پڑھاۓ جانے والے لاکھوں ناموں میں سے کوئی نام نہیں ہئے۔ کمپیوٹر کے متعلق لاکھوں ناموں اور اصطلاحات میں سے ان میں کوئی نہیں ہئے۔ کسی بھی مشین ، گاڑی، جہاز کو کھولیں کوئی پرزہ مقامی نام کا نہیں ہئے۔ کیوں کہ یہ تمام ایجادات ان کے ہیں جن کا ہم نام لینا نہیں چاہتے اور یہ غیر مانوس نام بھی انہوں نے رکھے ہیں ہماری گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ اٹھاکر دیکھیں ہم نے ایجادات نہیں کئے۔ تعلیم کو سرکاری اور مذہبی طور پر حرام قرار دیا۔ ہم نے تاج محل اور اس جیسی چند عمارتیں بنوائیں۔
آخر میں میں یہی کہوں گا کہ اگر آپ قوم کے بچوں کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کو انگریزی میں وہ تمام مضامین پڑھائیں جو ہماری علاقائی زبانوں میں بوجوہ ممکن نہیں ہیں اور ان کو معاشرے کا با اخلاق شہری بنانے اور ہماری مشرقی اور تہزیبی روایات سکھانے کے لئے اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کی تعلیم دیں تاکہ ان زبانوں کی مٹھاس اور اپنائیت برقرار رہے۔ کیوں کہ بدیسی زبانوں میں اپنائیت کی چاشنی بہر حال کم ہی ہوتی ہئے۔
0 Comments