قرآن کریم کی مختلف تقسیمات (جزء بندیاں):
(ڈاکٹر ظہیر الدین بہرام)
قرآن کریم کو مختلف حوالوں سے مختلف اجزاء میں تقسیم کیا گیا ہے جن کو جاننا ضروری ہے ورنہ اس حوالے سے غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں، جیسا کہ آج کل اکثر لوگ ایک غلط پوسٹ بغیر سوچے سمجھے شیئر کر رہے ہیں جس میں روزانہ ایک رکوع کی تلاوت سے سال میں تین مرتبہ قرآن کریم ختم کرنے کی نامعقول بات کی گئی ہے۔ اب لوگ نہ رکوعات کی تعداد کی طرف توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی ان رکوعات میں سے بعض کے بہت طویل اور بعض کے بہت مختصر ہونے کی طرف کسی کا دھیان جاتا ہے، بس "بہت اخلاص کے ساتھ" غلط اعداد و شمار اور سنت کے خلاف خود ساختہ طریقے پر مشتمل پوسٹ شیئر کرتے رہتے ہیں۔
قرآن مجید کی دو بنیادی تقسیمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1. توقیفی تقسیم:
اس سے مراد وہ ترتیب و تقسیم جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کی گئی ہے۔ اس ترتیب و تقسیم کو من و عن اور بغیر کسی عقلی دلیل کے ماننا ضروری ہے۔ یہی توقیفی کا مطلب ہے یعنی جہاں پہنچ کر انسان کی عقل اور اس کا اختیار موقوف ہو جائے یعنی رک جائے۔
قرآن کریم کی موجودہ ترتیب، جسے ترتیبِ تلاوت کہا جاتا ہے، یعنی الحمد سے لے کر والناس تک کی ترتیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور جبریل علیہ السلام کی نشاندھی پر کی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ترتیب نزول آیات کی ترتیب سے نہیں ہے، کیونکہ سب سے پہلے نازل ہونے والی آیات یعنی سورۃ علق کی ابتدائی پانچ آیات قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں چھیانوے نمبر سورۃ کی ابتداء میں اور تیسویں یعنی آخری پارے کے آخری حصے میں درج ہیں جبکہ آخری نازل شدہ آیت "واتقوا یوما تُرجعون فیه الی اللہ ۔ ۔ ۔ " قرآن کی دوسری سورۃ یعنی البقرہ کی 281 نمبر آیت کے طور پر تیسرے پارے کے تقریباً درمیان میں درج ہے۔ اگر نزول کی تربیت ہوتی تو قرآن کریم کا آغاز "اقرأ باسم ربک الذی خلق" سے اور اختتام "واتقوا یوما تُرجعون فیه الی اللہ ثم توفیٰ کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون" پر ہوتا لیکن ایسا نہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے جبریل امین کے ذریعے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ترتیب بتائی ہے اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بتائی، لکھوائی اور یاد کروائی ہے وہی ترتیب حتمی ہے جسے آگے پیچھے کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں، اور نہ ہی انسانی عقل کا اس میں کوئی عمل دخل ہے۔
اسی طرح مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق 114 سورتوں اور اس میں موجود آیات کی تقسیم و ترتیب (یعنی سورۃ کہاں سے شروع ہوتی ہے، کہاں ختم ہوتی ہے اور اس میں کتنی اور کون کونسی آیات کس ترتیب سے شامل ہیں، اسی طرح آیت کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے نیز اس میں الفاظ و حروف کی ترتیب کیا ہے وغیرہ وغیرہ) بھی توقیفی یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے طے کردہ ہے جسے آگے پیچھے کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں۔ اس تقسیم و ترتیب اور اس کی حکمت بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔
2. اجتہادی تقسیم:
اس سے مراد اصحاب علم کی طرف سے تلاوت قرآن کریم میں آسانی کے لیے تقسیم و ترتیب۔ یعنی دن کے مختلف اوقات یا پھر روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ کے اعتبار سے تلاوت کے مقدار کی ترتیب بنانے کے لیے قرآن کریم کو منزل، پارہ، ربع (یعنی ہر پارے کی چار چوتھائیوں) میں تقسیم کیا گیا ہے جس کا تعلق محض لوگوں کی آسانی سے ہے اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں یعنی اس تقسیم و ترتیب کا اہتمام کرنا لازمی نہیں بلکہ ہر شخص اپنی سہولت اور ذوق کے مطابق کوئی بھی ترتیب اختیار کر سکتا ہے اور چاہے تو اس سے ہٹ کر اپنے لیے کوئی اور ترتیب بنا سکتا ہے۔ کوئی شخص چاہے تو اپنے لیے روزانہ پورے قرآن کریم کی تلاوت کو معمول بنا سکتا ہے، یا ہر دوسرے یا تیسرے یا چوتھے دن قرآن کریم کو مکمل تلاوت کرنے کی تربیت بنا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی سات دن میں قرآن کی تلاوت مکمل کرنا چاہے تو وہ سات منزلوں کی ترتیب کو اپنا سکتا ہے، جو دس دن میں تلاوت مکمل کرنا چاہے تو روزانہ تین پارے پڑھ سکتا ہے، جو پندرہ دنوں میں قرآن کی تلاوت مکمل کرنا چاہے تو روزانہ دو پارے پڑھ سکتا ہے، جو ایک مہینے میں قرآن کی تلاوت مکمل کرنا چاہے تو وہ پاروں (یا اجزاء) کی ترتیب (یعنی روزانہ ایک پارے کی تلاوت) کو اختیار کر سکتا ہے اور کوئی چار مہینے میں قرآن کی تلاوت مکمل کرنا چاہے تو ربعوں کی تربیت کے مطابق ہر روز پارے کا ایک چوتھائی تلاوت کرکے سال میں تین مرتبہ قرآن کی تلاوت مکمل کر سکتا ہے۔ ان سے ہٹ کر بھی کوئی ترتیب بنائی جا سکتی ہے لیکن درج بالا ترتیب میں زیادہ آسانی اور نظم و ضبط کا اہتمام ہے۔ ان میں سے بعض تقسیم کے لیے احادیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین کے معمولات سے استفادہ کیا گیا ہے۔
اجتہادی تقسیم کی ایک اور قسم مختلف آیات کو رکوعات میں تقسیم کرنا اور رموز اوقاف کے مطابق ایک آیت کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اب کہاں وقف کرنا یعنی رکنا لازمی ہے، کہاں رکنا بہتر ہے، کہاں رکنا جائز ہے اور کہاں رکنا ناجائز ہے یہ سب اسی کے مطابق طے کیے جاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ رکوعات اور اوقاف کی ترتیب و تقسیم کا تعلق قرآن کریم کے مضامین اور موضوعات سے ہے نہ کہ روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ، یا سالانہ کی ترتیب تلاوت سے۔ یعنی گفتگو کا سلسلہ یا موضوع جہاں ختم ہو کر نیا سلسلہ یا نیا موضوع شروع ہو رہا ہے تو اس کی نشاندھی کے لیے وہاں کوئی علامت لگائی جاتی ہے جو رکوع (ع) یا دیگر رموز اوقاف (م، لا، ط، ج، ز وغیرہ) کی صورت میں ہے۔ تلاوت کے دوران ان علامات اور رموز کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن ان کا روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ یا سالانہ ترتیب تلاوت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔

0 Comments