لاشوں کی سیاست کب تک


25 نومبر کی آخری کال آگئی۔ علی امین گنڈاپور اور محترمہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں بہت بڑا جلوس جیسے تیسے وفاقی دار الحکومت پہنچا۔ اسلام آباد پہنچنے کے بعد بشریٰ بی بی کی اشتعال انگیز اور دھواں دار تقریریں سننے کو ملیں جس سے جلوس میں شامل لوگ مزید چارج ہوتے گئے اور قیدی نمبر 804 کو اڈیالہ جیل توڑکر نکالنے کے لئے بیتاب نظر آنے لگے۔ اس دوراں مبینہ طور حکومت کے ذمہ داروں اور جلوس کے قائدین کے درمیان مذاکرات کی خبریں آتی رہیں اور یہ باتیں بانئ پی ٹی آئی تک بھی پہنچائی جاتی رہیں۔ قیدی نمبر 804 کی طرف سے احتجاج سنجانی میں منعقد کرنے کی اطلاعات امن پسندوں کے لئے نیک شگون تھیں۔ اور اس کے ساتھ کسی نادیدہ طاقت کی طرف سے عمران خان کی رضامندی کے خلاف بغاوت کرکے صرف ڈی چوک پر ہی مظاہرہ کرنے پر اصرار کا مطالبہ سننے کو ملا جو حکومت کے ذمہ داروں کے لئے کسی طور قابل قبول نہ تھیں۔ چنانچہ دونوں اطراف سے لچک دکھانے کو کوئی تیار نہ تھا۔ ظاہر ہئے ایسی صورت میں نہ صرف حکومتی موقف بلکہ اس کی طاقت بھی حملہ آؤروں کے مقابلے میں ہزاروں گنا مضبوط اور منظم تھی۔حملہ آؤروں کی نادیدگان کو ترپل ون بریگیڈ کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔ ان پانچ دس ہزار کے جتھوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلانا دنیا کی مضبوط ترین ٹکڑی کیلئے منٹوں کا کام تھا۔ لیکن مسلہ یہ تھا کہ رینجر اور پولیس کے شہید جوانوں تکفین کرنا اور بیلا روس کے صدر اور ان کے ساتھ آنے والے پچھتر رکنی وفد کے معاہدوں پر طرفین کے دستخط لینا اور ان کو ہوٹلوں تک پہنچانا باقی تھا۔ ان سب سے فارع ہونے کے بعد ملک کے رکھوالوں نے پتہ کیا کہ وہ نا معلوم باغی بدیسی تھے اس لئے جوانوں کو حکم ملا کہ پاک دھرتی کو مزید تماشا بننے سے بچایا جاۓ۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور بلوائیوں کو ڈی چوک خالی کرنے کے لئے صرف پانچ منٹ کا وقت دیا گیا۔ خیبر پختون خواہ کی  نا سمجھ قیادت اور بہکے ہوۓ سرکاری ملازمین کو جانے دیا گیا اور جو بدیسی مہم جوئی پر آئے تھے انہیں یہاں کے قانون سکھانے کے لئے روک لیا گیا۔ اب تک سب کی ہوا نکل چکی تھی اور اچھے بچوں کی طرح نکل گئے۔ کوئی خون نہیں بہا۔ کرم ایجنسی کے شہدا کے جنازے یہاں نہیں دکھاۓ جاسکتے۔ کوئی وارث آگے آکے اپنے کسی مقتول کی لاش دکھاۓ۔ فیس بک پر واویلا نہ مچائیں دنیا اصلی اور نقلی میں تمیز کرسکتی ہئے۔