چترال لٹریری کلب۔
کہنے کو یہ ایک بے رنگ سی محفل تھی ، ایک ایسی محفل جس میں شرکاء محفل کے لیے چائے تک کا انتظام نہیں تھا اس میں چترال کے چیدہ و چنیدہ اہل ِ دانش حضرات مدعو و موجود تھے۔قلم سے رشتہ رکھنے کی وجہ سے ناچیز کو بھی مختلف طبقہ ء فکر کے ان نمائندوں کے ساتھ بلایا گیا تھا ۔خطیب (مولانا خلیق الزمان کاکاخیل) صاحب کی معیت میں پاکستانی مزاج کے برعکس مقررہ وقت سے پانچ دس منٹ قبل ہی مجلس گاہ پر پہنچے۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ محافظوں کے جلو میں آنکھوں میں معصومیت لیے ، چہرے پر متانت پھیلائے ایک خوش شکل جوان ہال میں تشریف لائے۔ آج کی محفل کے میرِ محفل بھی یہی خوبصورت جوان تھے اور ہمارے رسمی میزبان بھی۔ میزبان سے پہلے پروگرام کے "روحِ رواں" نے شرکاء کا مختصر تعارف کرایا۔ جی یہ چترال کے مستند شاعر ہیں، یہ بھلا کا نثر نگار ہے انہیں ماہر تعلیم مانا جاتا ہے، کھوار ادب میں ان کی خدمات لازوال ہیں، ان کا میدانِ کار لسانیات ہے۔ ان کی غزلیں بہت سنی جاتی ہیں ، ان کا شمار چترال کے بڑے انٹلکچوئلز میں ہوتا ہے، ستار بجانے میں طاق اس جوان کو سُروں کا بادشاہ کہا جاتا ہے ، یہ جوان موسیقی کی دنیا کا بڑا نام ہے۔ اسامہ وڑائج اکیڈمی کے ڈائرکٹر فداء الرحمن کے تعارفی کلمات کے بعد اب "میزبان" کی باری تھی ۔
میزبان نے بیٹھک کے مقاصد حاضرین کے گوشِ گزار کرنا شروع کیا۔ تمہیدی کلمات کہے۔ عرض کیا۔ معاشرے میں رنگ و بو بس آرٹس (فنون) سے ہے۔ شاعر اور ادیب معاشرے کے نباض ہوتے ہیں۔ فکری انقلاب میں شعراء اور ادباء کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کی جو دگرگوں حالت ہے اس کی ایک بڑی وجہ معاشرے میں ادبی سرگرمیوں کی فقدانیت ہے۔ آج کا ہمارا نوجوان سوشل ائسولیشن میں ہے۔ صرف اپنے لیے جینا کوئی بڑا اچیومنٹ نہیں ہوتا ۔ باوجود یہ کہ چترال میں شرح خواندگی مثالی ہے ، یہاں کا ٹیلنٹ کماحقہ اجاگر نہیں ہو رہا۔ باوجود یہ کہ یہاں لسانی و مذہبی تنوع و تکثّر لیے ہوئے ایک بہترین ثقافت موجود ہے، اسے خاطر خواہ پذیرائی نہیں مل رہی ۔ ہمارے پاس چترال میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ، یہاں اچھے اچھے محقق اور مصنف ہیں ۔ کالم نگار اور ادیب ہیں ۔ علماء اور تاریخ دان ہیں۔ اگر کمی ہے تو ٹیلنٹ کی سرپرستی کی کمی ہے اسے چمکانے اور اجاگر کرنے کی کمی ہے۔ ہمیں ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جس کے زریعے ہماری نوجوان نسل اپنے علماء، ادباء ، شعراء ، انٹلچوئلز ، فنکار ، مورخین اور مصنفین سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکے۔
میزبان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
چترال لٹریری کلب کے نام سے آج ہم ایک ایسے پلیٹ فارم کی داغ بیل ڈالنے جا رہے ہیں جس کے زریعے ہمارے نوجوان اپنے بڑوں سے کچھ سیکھ سکیں، شاگرد اپنے استادوں سے مل سکیں، پیاسے چشموں اور سرچشموں سے سیراب ہو سکیں۔ میونسپل لائیبریری کا ایک کونہ مجوزہ لٹریری کلب کے لیے مختص ہو گا، یہاں لٹریری کلب کی بیٹھکیں لگیں گی، سیشنز ہوا کریں گے۔ کام کا طریقہ یہ ہو گا کہ ہفتہ وار لٹریری کلب کی بیٹھک لگے گی۔ بیٹھک میں کسی محقق ، شاعر ، ادیب، کام نگار، ماہرِ تعلیم، علامہ، فلسفی یا اسکالر کی اسپیچ رکھی جائے گی ، اسپیچ کے بعد سوال و جواب ، تبادلہ ء خیال اور گفت و شنید کا مرحلہ ہو گا۔ سامعین کی ایک مخصوص تعداد اگر بیٹھک میں آ کر مقرر کو سنے گی اور سوال و جواب کی نشست میں حصہ لے گی تو کافی سارے لوگ گھروں میں بیٹھے بھی مقرر کے خیالات سے آگاہ ہو سکیں گے۔ اسی طرح ایک ڈیجیٹل لائبریری کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا، سیشنز میں ہونے والی گفتگو ڈیجیٹل لائبریری میں محفوظ بھی ہو گی اور ان لوگوں کو میسر بھی ہو گی جو بیٹھک میں حاضر نہیں ہو سکتے۔ ڈیجیٹل لائبریری کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے چترالی نوجوان اپنی ضرورت کی کتابوں تک بآسانی رسائی حاصل کرسکیں گے۔
معاشرے کے مختلف طبقوں کے درمیان مکالمہ و مباحثہ لٹریری کلب کی سرگرمیوں میں سے ایک اہم سرگرمی ہو گا ان طبقہائے زندگی کے مابین ہونے والے مکالمے سے نہ صرف علم و آگہی کی ہوائیں چلیں گی بلکہ برداشت جیسے اہم رویے کو بھی فروغ ملے گا۔ آج ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ عدم برداشت بھی ہے۔ عدم برداشت کئی مسائل کے لیے جڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔
میزبان نے توقف کیا، گلا کھنکارا پھر سلسلہ ء گفتگو کو جوڑتے ہوئے عرض کیا۔
لٹریری کلب کا قیام کسی مشکل ہدف کے حصول و وصول کے لیے نہیں ہے ۔ سمپیلی ہم شعراء، ادبا ، علماء ، فضلاء ، عقلاء ، ماہرین ِ تعلیم اور فنکاروں کو باہم ملانا چاہ رہے ہیں۔ ان کا باہم اکھٹا ہونا اور علمی مباحثہ کرنا علم و فکر کے نئے دریچے کھولے گا ہم یہی چاہ رہے کہ ہمارے جوانوں کا تعلق اہل ِ کتاب سے بھی بنے اور کتابوں سے بھی۔ کتاب کے بغیر ہمارا نوجوان آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے کا مفید شہری بن سکتا ہے۔
کامرس کالج کی دیوار پر نوشتہ اس جملے نے مجھے بہت متاثر کیا کہ اگر تمہیں کوئی پریشانی ہو تو لائبریری چلو۔
میزبان نے مزید کہا۔
لٹریری کلب کے پلیٹ فارم تلے منعقد ہونے والی سرگرمیوں کی معاونت کے لیے ہم مختلف این جی اوز سے رابطہ کریں گے انہیں قائل کریں گے کہ لٹریری کلب کے تحت ہونے والی سرگرمیوں کو اسپانسر کریں۔
دو تین دن قبل میونسپل لائبریری میں منعقد ہونے والی اس محفل میں ہمارے یہ میزبان محسن اقبال تھے۔ محسن اقبال آج کل ڈپٹی کمشنر چترال ہیں۔ کتابوں سے ان کی محبت و وابستگی، اور گفتگو میں حد درجے کی متانت بتا رہی ہے کہ موصوف کی پہلی تقرری ہی چترال میں ہوئی ہے موصوف یہ تازہ بہ تازہ مقابلے کے امتحان سے نمٹ کر آئے ہیں۔ ان کی شخصیت ابھی کتابوں کی خوشبو سے محروم نہیں ہوئی ہے۔ اللہ کرے علم، اہل علم ، فن اور فنکاروں کے ساتھ ان کا یہ تعلق سدا قائم رہے۔
چترال لٹریری کلب کا قیام ڈی سی صاحب کا انقلابی قدم ہو گا، ان کی سرپرستی ہو گی تو وہ دن دور نہیں، جب لٹریری کلب کے سائے تلے ہونے والی فکری بیٹھکوں ،ادبی مباحثوں اور عقلی مکالموں کی خوشبو چترال بھر میں پھیلے گی۔ لکھنے لکھانے سے تعلق ہونے کے ناتے مَیں ڈی سی چترال کے اس اقدام کو بھرپور سراہتا بھی ہوں اور اس کی پرزور تائید بھی کرتا ہوں۔
0 Comments