الوداع اے جنت کے پھول
ابو_سفیان_ظاہر_الدین_چترالی
والد کا پیارا، بھائی کا دُلارا، بہن کی آنکھوں کا تارا اپنی والدہ کا لعل محمد بلال کی شہادت اگرچہ ان کے خاندان کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی معصوم بیٹا جنت کا دروازہ کھٹکٹانے لگا جس کی وجہ سے والدہ کا کلیجہ منہ کو آرہا ہے لیکن پھر بھی زبان ربِّ کائنات کے حضور شکوٰہ کناں نہیں ہے بلکہ بزبانِ حال و قال یہ کہہ رہی ہے کہ میرے پروردگار آپ نے اپنی امانت میرے بیٹے کی صورت میں مجھے سونپی تھی اب واپس لے لیا لہٰذا مجھے آپ سے کوئی شکوٰہ و شکایت نہیں۔
اکلوتی بہن اور بھائی کی جستجو تھی کہ ہمارا بھائی حافظ قرآن بنے اور بلال کا اپنا تمنا بھی یہی تھا اس لئے گھر والے نا چاہتے ہوئے بھی محمد بلال کو اجنبی شہر بھیجنے کا مشورہ دیتے ہیں، کچھ رشتہ دار کہتے ہیں کہ بلال گھر میں رہ کر بھی قرآن مجید حفظ کر سکتا ہے لیکن بلال اور گھر والوں کا اصرار ہوتا ہے کہ نہیں بلال کو گھر کی قربانی دینی ہوگی حفظِ کلامِ پاک کے لیے ہجرت کرنی پڑے گی تاکہ یکسوئی سے جلد از جلد اپنے سینے کو نورِ الٰہی سے منوّر کرے لیکن ان کو محوِ گفتگو دیکھ کر تقدیر مسکرا رہی ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ ان کو کیا پتہ کہ کچھ ہی دنوں بعد محمد بلال نے جنت میں اللّٰه تعالیٰ کا مہمان بننا ہے۔
آخر وہ دن آ ہی جاتا ہے کہ محمد بلال کو اشکبار آنکھوں سے گھر والے رخصت کرتے ہیں اور وہ حفظِ قرآن کی نیت سے دار الحکومت اسلام آباد کی طرف رختِ سفر باندھنے لگتا ہے۔
امامِ ترمذی رح نے حدیث نقل فرمائی کہ "" من خرج فی طلب العلم فھو فی سبیل اللّٰه حتی یرجع "" جو شخص علم کی طلب میں گھر سے نکلا وہ اللّه کے راستے میں (جہاد کرنے والے کی طرح) ہوتا ہے یہاں تک کہ گھر واپس لوٹے۔
امام ترمذی رح نے ہی دوسری یہ روایت بھی نقل فرمائی ہیں کہ "" ان الملائكة لتضع اجنحتها لطالب العلم رضا بما يطلب ""
طالب علم کی طلب سے خوش ہو کر اس کے لیے فرشتے اپنے پَر بچھاتے ہیں۔
بے شک یہ اور اس جیسے بے شمار فضائل محمد بلال نے سمیٹے ہیں لیکن میں جب محمد بلال کی شہادت پر غور کرتا ہوں کہ وہ اللّٰه تعالیٰ کو کتنا محبوب تھا کہ جب انہیں اپنے پاس بلایا بھی تو اعلیٰ اعزازات سے نواز کر، اس لیے مجھے بلال کی شہادت پر رشک آتا ہے کیونکہ ان کا پہلا اعزاز یہ ہے کہ وہ معصومیت کی عمر یعنی مکلف ہونے سے پہلے ہی رخصت ہوگئے ایسے بچوں کی نیکیاں تو لکھیں جاتی ہیں لیکن گناہ نہیں کیونکہ وہ ابھی تک شریعت کے مکلف نہیں ہوئے ہوتے ہیں۔
دوسرا اعزاز یہ ہے کہ حفظِ قرآن کے ارادے سے ہجرت کی تھی اللّٰه کے راستے میں موت آئی۔
تیسرا اعزاز یہ ہے کہ موت بھی حادثہ کی صورت میں آئی جو کہ حدیث کی رو سے شہادت حکمی کا درجہ رکھتی ہے۔
چوتھا اعزاز یہ ہے کہ شہادت نصیب ہوئی بھی تو جمعۃ المبارک کے دن جو کہ سید الایام ہے اور اس دن جس کو موت آ جائے ان کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ "" من مات ليلة الجمعة، او يوم الجمعة، برئ من فتنة القبر، او قال وقي فتنة القبر، وكتب شهيدا ""
جو شخص جمعہ کے دن یا رات کو فوت ہو جائے تو وہ عذاب قبر سے محفوظ ہوتا ہے اور اسے شہید لکھا جاتا ہے۔
ان سب اعزازات کو محمد بلال سمیٹ کر خود تو جنت چلے گئے لیکن پیچھے کئی پرنم آنکھیں چھوڑ گئے۔
میرا وجدان کہتا ہے کہ غزہ فلسطین کے شہید بچوں سے جنت میں ایک گلدستہ بن رہا ہے جس میں محمد بلال شہید کو بھی ایک پھول کی صورت میں شامل کر دیا گیا اور وہ بھی شہید بچوں سے بننے والے گلدستے میں شامل ہوگئے۔
اللّٰه تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرما کر محمد بلال کو ان کے لیے شفاعت کا ذریعہ بنائے آمین ثم آمین یا ربّ العالمین۔
0 Comments