" پہلے عشر کی بات پھر بھٹو زندہ باد "
ڈاکٹر اسماعیل ولی
مستوچ کی جنالی (کھیل کا میدان) ، راقم مستوچ سکول کا طالب علم، اور سکول کے لڑکوں کو جنالی کے مشرقی کنارے پر ترتیب سے بٹھایا گیا تھا- میرے ساتھ چونچ کے نادر علی شاہ مرحوم (خدا جنت دے) اور سید قمرلدین شاہ بیٹھے ہوے تھے- بھٹو صاحب اور ڈاکٹر مبشر حسن چلتے ہوے ہماری طرف اے- اور ہم اٹھ گیے- ہم سے ہاتھ ملایا- پھر پوچھا سکول کہاں ہے- تو ہم نے سکول کی طرف اشارہ کرکے بتایا- وہ ہے- تو بھٹو صاحب مبشر حسن سے مخاطب ہوکے انگریزی میں کچھ کہا- شاید وہ یہ کہ رہے تھے- کہ اس سکول میں پڑھ کر یہ کیسے اگے بڑھیں گے-
جنالی میں جو لوگ جمع تھے- وہ مختلف وادیوں سے ایے ہوے تھے- خصوصا لاسپور، یار خون، بونی، ریشن- اور یہ وہ زمانہ تھا- کہ جیپ بونی تک اتی تھی- اور لوگوں کا پیدل انا بھی ان کے سیاسی جذبے کی علامت تھی- بونی سے محترم افضل علی صاحب سپاس نامہ پڑھنے کے لیے اے ہوے تھے- قران پاک کی تلاوت محترم قاضی حضرت الدین صاحب مرحوم نے کی- اور بھٹو صاحب نے انگریزی میں تقریر کی- پھر اس کا ترجمعہ افضل علی صاحب نے کی- لوگوں کا شاید ایک ہی مطالبہ تھا- کہ عشر کو ختم کیا جاے- فصلوں پر ریاست جو ٹیکس لیتی تھی- وہ دسواں حصہ تھا- اسلیے اس کو عشر کہتے تھے- اس سلسلے میں ایک بزرگ (سید گمانی شاہ المعروف دودوے) کی بات کہاوت بن گی-" پہلے عشر کی بات پھر بھٹو زندہ باد"
اور بھٹو صاحب نے عشر لینے کا دستور ختم کردیا- اور اس اعلان کے بعد لوگوں کے دلوں میں بھٹو کیلے ایک ایسا جذباتی لگاو پیدا ہوا- جو اب بھی باقی ہے-
اس زمانے میں پاکستان کے وزیر اعظم کا مستوج انا ایک تاریخی واقعہ تھا- کیونکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد پاکستان کے کسی وزیر اعظم کو اتنے دور افتادہ گاوں میں اکر لوگوں کے مسایل سننے کا نہ موقع ملا نہ توفیق ہویی- اسی سال بروغل میں قحط پڑا- تو سی ون تھرٹی کے ذریعے بھوس اور گندم پہنچایا گیا- اور غذایی کمی کو پورا کرنے کے لیے امریکہ سے غلہ منگواکر چترال پہنچایا گیا-
چترال کی تاریخ میں یہ ایک انقلابی واقعہ تھا- اسلیے انمٹ نقوش چھوڑ گیا- اور شاعروں کے تصور کو بھی گدگدا یا- چپاڑی کے ملنگ مشہور شاعر تھے- اور فلبدیہ اشعار کہنے میں ماہر تھے- چونکہ غلے کا ڈپو بونی میں ہوتا تھا- الیے کہا" امریکہ شیراے بو نیغان کھشمان" بونی والوں کی فصل امریکہ میں کاشت ہویی-
اور مستوچ کے ایک شاعر خوش محمد نے کہا" بھٹو و باچھاییا گوم ژبوسیا ن سال تہ مودام"- بھٹو کی بادشاہی میں سارا سال گندم کھاتے ہیں-
غذا انسان کی بنیادی ضرورت ہے- اور انسانی زندگی کی دوسری جہتیں اس بنیادی ضرورت سے وابستہ ہیں-
اسلیے انگریزی میں کہتے ہیں- بھوک غصے کا باعث بنتی ہے- اور غصے کی وجہ سے جرایم سرزد ہوتے ہیں- یہ وہ زمانہ تھا- کہ سکول کے بھت سے بچے ننگے پاوں سکول اتے تھے- اور سکول میں شاید ہی کویی ایسا بچہ ایسا تھا- جس کے کپڑوں پر پیوند نہ لگا ہو- یہ وہ زمانہ تھا- جب اسمبلی میں بعض لڑکے خوراک کی کمی کی وجہ سے گر جاتے تھے-
بھٹو صاحب سے ہزار اختلافات کے با وجود یہ ماننا پڑے گا- کہ انہوں نے چترال کے لوگوں کے لیے بہت کچھ کیا- لواری کا سرنگ کا منصوبہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے- خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ڈپو کا انتظام کیا- اور اشیاے خوردو نوش وافر مقدار میں دور و دراز علاقوں تک پہنچایا- اور اس بات کو یہاں دہرانا ضروری ہے- کہ اس وقت کے وزیر اعظم کا مستوج انا ایک منفرد واقعہ ہے- اور یہ بھٹو صاحب کی فعالیت کا منہ بولتا ثبوت ہے-
(بشکریہ چمرکھن )
0 Comments