بشریٰ بی بی کی سرگرمیوں کے نتائج


سابق خاتون اول محترمہ بشریٰ صاحبہ نے آج کل پشاور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کبھی خبریں آتی ہیں ک وہ چلہ کاٹتی ہیں۔ کبھی ٹھیکیداروں اور محکمہ تعمیرات والوں کی ایسی کی تیسی پھیر دیتی ہیں۔ خیر ہمیں ان کی سرگرمیوں سے کیا لینا دینا۔ پارٹی والے جانے اور محترمہ جانے لیکن تعجب خیز خبر یہ ہئے کہ ایک غیر سیاسی خاتون وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بیٹھ کر چوبیس نومبر کے احتجاج میں شرکت کیلئے ایم این ایز اور ایم پی ایز کا اجلاس بلاتی ہیں اور حکم صادر کرتی ہیں کہ ہر ایم این اے اپنے ساتھ دس ہزار اور ہر ایم پی اے پانچ ہزار بندے لاۓ۔ مجوزہ تعداد کا بندو بست کرنے میں ناکام ممبران کی ممبرشپ ختم کی جاۓ گی اور جو افراد مقررہ تاریخ کو گرفتار ہوں گے انہیں بھی ڈی سیٹ کیا جاۓ گا۔ اصل مسلہ یہ نہیں کہ بشری بی بی یہ سب کچھ کیوں کرتی ہیں وہ اس لئے کرتی ہیں کہ ان کو ان کے شوہر نامدار کی آشیر باد حاصل ہے۔ مگر یہ کیا دوسری طرف عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ باجی اپنی بھابھی کے خلاف کیمپین چلارہی ہیں اور جلسوں میں برملا پنکی پیرنی کے خلاف زہر اگل رہی ہیں۔

بھاوج اور نند کی یہ رسہ کشی اقتدار پر اپنی اپنی گرفت مضبوط بنانے کیلئے ہئے۔ ایسے وقت میں جب خان صاحب پابند سلاسل ہیں۔اور جو دوسرے درجے کی قیادت باہر ہئے وہ یا تو کمپرو مائزڈ ہئے یا پھر اس احتجاج ہی کے خلاف ہئے۔ باہر بیٹھے معدودے چند یو ٹیو برز، وی لا گرز اور دوسرے افراد سوشل میڈیا میں ہیجان خیز خبریں چڑھا کر ڈالر کمانے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ان دو خواتین کے درمیان ایک دوسرے کو نیچا دکھانا سمجھ سے بالاتر ہے


جہاں تک محترمہ بشریٰ بی بی کی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان سے پانچ پانچ اور دس دس ہزار بندے لانے کے حکم کا تعلق ہئے یہ کسی بھی زاوئیے سے ممکن نہیں لگتا کیونکہ پی ٹی آئی کے کوئی دوسو ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ذمے کوئی دولاکھ افراد لگادئے گئے ہیں ان کو اسلام آباد لانے کیلئے کم از کم چار ہزار بسوں کی ضرورت ہوگی اور اتنی بڑی تعداد میں بسوں کا بند و بست، ان کیلئے کراۓ کا انتظام، کارکنوں کو اسلام آباد میں ٹھہرانے، ان کے خوراک وغیرہ کی فراہمی بھلا کیسے ممکن ہوسکے گی۔جبکہ پنجاب کی حکومت نے تئیس تا پچیس نومبر بس مالکان کو بسیں چلانے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دے رکھی ہئے۔ سب سے بڑا مسلہ یہ ہئے کہ علی آمین گنڈاپور کے علاؤہ پی ٹی آئی کی قیادت اس احتجاج کے خلاف ہئے۔ اور وہ شاید آن لائن شرکت کریں گے۔


ہم محترمہ بشریٰ بی بی کی گرفتاری کی صورت میں پارٹی سے نکالنے کی دھمکی والی منطق سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ بھی پارٹی سے مخلص نہیں ہیں۔ اور کہتے ہیں آ بیل مجھے مار۔ مگر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اپنی قیادت سے پوچھنا تو بنتا ہئے کہ وہ محب وطن پاکستانی ہیں انہیں بلی کا بکرا بناکر ملک میں انارکی پھیلانا درست نہیں اس کا فایدہ پاکستان کے دشمنوں کو ہوگا اور نقصان صرف پی ٹی آئی کو ہوگا۔

نوٹ۔۔۔ مضمون نگار امان اللہ خان ایوبی سابق پرنسپل معروف ماہر تعلیم اور سیاسی رہنما ہیں