کبھی آؤ نا چترال۔۔
حمد ثنا اس پروردگار کیلیے جس نے انسان کو شعور کی دولت سے نوازا اور اشرف المخلوقات کا خطاب دیا۔ تعریف اس ذات پاک کی جس نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔ اور دنیا کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے کیلیے بصارت کی نعمت عطا کی۔ تمام عیوب سے پاک ہے وہ ذات جس نے انسان کو نطق کی نعمت بخشی۔ یکتا اور بے نیاز ہے وہ ذات جس نے انسان کو قلم کے ذریعے تعلیم دی۔ دنیا و آخرت کی تمام تر بھلائیاں اس ذات پاک کے قبضہ قدرت میں ہیں جس نے دنیا کی کوئی چیز بے فایدہ پیدا نہیں کی۔ اور شروع اسی پروردگار کے بابرکت نام سے کرتے ہیں۔ جس نے انسان کو عقل و شعور کی دولت سے نواز کے ممتاز بنایا۔ اور پھر اپنی ایات، اپنی تخلیقات، اور کائنات کے اسرار و رموز جاننے کیلیے غور فکر کی تلقین کی۔جب انسان کائنات کی چیزوں میں غور کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت عظیم ڈیزائن پر مشتمل ہے جس کے پیچھے لامحدود درجے کی کوئی ذہین ہستی ہے۔ یہیں سے انسان کو خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالی کی لامحدود طاقت، ذہانت اور تخلیقی قوت کو سمجھ لیتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ کوئی کمپیوٹر دیکھتے ہیں تو فوراً آپ کا ذہن اس کے بنانے والے کی تخلیقی قوت کی جانب جاتا ہے۔ یہی معاملہ اتنی بڑی کائنات کا ہے۔ اگر انسان مذہب کے بارے میں کسی تعصب کا شکار نہ ہو تو وہ فوراً یہ جان لیتا ہے کہ اتنی عظیم اور پیچیدہ کائنات کا یقیناً کوئی خالق و مالک ہے۔ انسان کو اس کے پروردگار نے مشاہدہ خلقت، اور کائنات کے رموز تک رسائی کی تلقین کی ہے۔ مشاہدہ خلقت اپنے اطراف و جوانب کا بنظر غائر جائزہ لینا ہے۔ کلام پاک میں بھی ‘تفکر فی الخلق‘ کا ذکر بارہا آیا ہے اور یہ تفکر فی الخلق یہی مشاہدہ خلقت ہے مشاہدہ کائنات ہے مشاہدہ کائنات بھی انسان پر علم و آگاہی کے بیشتر در وا کرتا ہے اب یہ انسان پر ہے کہ وہ اپنی اس قوت سے اپنی اس صلاحیت سے کس حد تک کام لیتا ہے مشاہدہ کائنات یا مشاہدہ خلقت انسان پر کائنات کے بیشتر پوشیدہ اسراار ظاہر کرتا ہے آشکار کرتا ہے ۔ مشاہدہ کائنات کیلیے انسان کو اپنی تخلیق کے ساتھ ساتھ خالق ارض و سماء کی مختلف تخلیقات اور اپنے اردگرد پھیلی ہوئی قدرت کی رنگینیوں کا باریک بینی سے نظارہ کرنا پڑتا ہے۔
حسن کائنات درختوں کے برہنہ شاخوں کو پتوں اور شگوفوں کی سبزخلعت پہنانے والے بہاروں میں ہو ، برف کی چادر اوڑھے بلند و بالا کوہساروں میں ہو، حسین مرغزاروں میں ہو، کھیت کھلیان اور لالہ زاروں میں ہو، گنگناتی آبشاروں میں ہو، مہکتے چمن زاروں میں ہو، تتلیوں کے اشاروں میں ، چاند کی چاندنی یا چمکتے ستاروں میں ہو یا شب دیجور کی طرح کمر پہ لٹکتی زلف یاروں میں دعوت نظارہ تو دیتی ہے۔ اور قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے ، ذوق کی تسکین اپنی آدرش اور تخیلات کی دنیا کو الفاظ کا جامہ پہنانے کیلیے اہل ذوق حضرات گردش دوران میں الجھے ہوے شب و روز کچھ لمحے چرا کر خوبصورت وادیوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس قسم کے سفر کو سیر و تفریح یا سیاحت کہتے ہیں ۔سیاحت تفریحی، فرحت بخشانہ،صحت افزائی، اطمینان بخشی یا قدرتی نظاروں کو دیکھنے کے مقاصد کے لیے سفر ہےسیاحت نہ صرف سیر و تفریح اور صحت افزائی کے لیے مفید ہے بلکہ سیاحت سے مقامی آبادی اور اس ملک کے اقتصاد کو تقویت ملتی ہے۔ لوگوں کو کام کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ سیاحت سے مختلف ثقافتوں اور خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور مختلف اچھی چیزیں ایک معاشرے سے دوسرے میں رائج ہوجاتی ہیں۔ سیاحت کی مختلف قسمیں ہیں جیسے قدرتی نظاروں کو دیکھنے کیلیے سیاحت، مذہبی سیاحت جس میں لوگ مختلف مذہبی جگہوں کو دیکھنے جاتے ہیں،تاریخی سیاحت جس میں لوگ آثار قدیمہ وغیرہ دیکھتے ہیں۔ ثقافتی سیاحت جس میں لوگ مختلف قسم کی ثقافتوں آشنائی حاصل کرتے ہیں۔ اگر آپ کو سیاحت کا شوق ہے۔ کائنات کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ برف پوش کوہساروں سے آگاہی چاہتے ہیں۔ دلکش نظاروں کو اپنی میموری میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ مختلف ثقافتوں کو قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ یا تاریخی مقامات کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ میری یہ تحریر آپ تک پہنچ چکی ہے۔ مگر ابھی تک آپ نے پاکستان کا سب سے پرامن ضلع چترال نہیں دیکھا ہے۔ آپ اگر ابھی تک کھو ثقافت کی رنگینیوں سے لطف اندوز نہیں ہوے ہیں۔ اگر آپ نے کیلاش کی قدیم اور منفرد ثقافت سے ابھی تک آگاہی حاصل نہیں کی۔ اگر آپ نے کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے کی بلند ترین چوٹی تریچ میر کو ابھی تک کیمرے کی آنکھ سے محفوظ نہیں کیا ہے۔ اگر آپ نے فلک بوس کوہساروں گہری اور پیچ و تاب کھاتی ندیوں، دلکش نظاروں، گنگناتی آبشاروں اور حسین مرغزاروں کی سرزمین کی سیر نہیں کی ہے، اگر آپ نے منفی درجہ حرارت میں بھی زمین کا سینہ چیر کر ابلتے ہوئے نکل کر بہنے والے گرم چشموں ، جون جولائی کی تیز حدت میں برف کی ٹھنڈک پہنچانے والے ٹھنڈے اور میٹھے چشموں کی مٹھاس کا مزا نہیں چکھا ہے، اگر آپ نے دنیا کی بلند ترین پولوں گراؤنڈ "شندور" میں بادشاہوں کا کھیل اور کھیلوں کا بادشاہ فری سٹائل پولو کا نظارہ نہیں کیا، اگر آپ نے کیلاش کی منفرد ثقافت اور ثقافتی تہوار "چلم جوشٹ " نہیں دیکھا ہے، اگر آپ نے پریوں کا محل" تیریچ میر " اور اسی سے متعلق دلچسپ اور عجیب و غریب دیو مالائی قصے نہیں سنے ہیں، اگر آپ کو ابھی تک ہاشم بیگم، بابا سیر اور شیر ملک کی رامانس کے بارے میں نہیں پتہ، اگر آپ نے ابھی تک ایک معاشرے کے افراد کو ایک جسم کی مانند محبتیں بانٹتے نہیں دیکھا، تو یوں سمجھو کہ آپ نے ابھی تک کچھ نہیں دیکھا ہے۔ اسلیے ابھی سے رخت سفر باندھیے اور چترال کا رخ کیجیے۔ کیونکہ یہاں کا قدرتی حسن، پرامن فضا اور منفرد ثقافت آپ ہی کے منتظر ہیں۔
اور میں آپ کو انہی صفحات میں بتانے کی کوشش کرونگا کہ
چترال کیسا علاقہ ہے ؟
یہاں کے لوگ اور لوگوں کی طرز معاشرت کیسی ہے ؟
یہاں کا مختصر تاریخی پس منظر کیا ہے؟
یہاں کی ثقافت اور ادب کے بارے میں مختصر معلومات؛
چترال "وجہ تسمیہ "
سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ اس نام میں کیا رکھا ہے ؟ تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ چترال کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا گیا، ماضی قریب تک مشہور نام قشقار تھا جو اب بھی کہیں کہیں مقامی طور پر یا اردگرد ہمسایہ علاقوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ موجودہ نام چترال کے بارے میں مورخین کہتے ہیں کہ یہ نام انیسویں صدی کے وسط سے استعمال ہونا شروع ہوا۔ اصل کھوار لفظ "چھترار" ہے جو دو الفاظ "چھتر" بمعنی کھیت اور آر بمعنی سے کا مرکب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں کے ایک حکمران نے موڑکہو سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک ملازم کو موجودہ صدر مقام میں زمین یا کھیت کا ایک ٹکڑا عنایت کیا۔ اس تخفے کو "چھترار " یعنی کھیت سے کٹا ہوا تخفہ کہا گیا۔ رفتہ رفتہ اس علاقے کا نام " چھترار " مشہور ہوا۔ چونکہ یہ علاقہ پایہ تحت تھا اسی لیے دارلخلافے کی مناسبت سے سارے علاقے کا نام "چھترار " مشہور ہوا۔ چونکہ اس لفظ میں کھوار زبان کا ایک مخصوص حرف شامل ہے اسلیے باہر سے آئے ہوے لوگ یا انگریز حکمران آسانی کیلیے چترال بولنے لگے۔ تو چترال مشہور ہوا۔ چھترار اب بھی مقامی طور پر یا کھوار زبان میں بولا اور لکھا جاتے ہے۔ جبکہ غیر چترالی سیاح اور دفتری استعمال کیلیے چترال ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
محل وقوع اور جغرافیہ۔۔
فلک بوس کوہساروں دلکش نظاروں، گنگناتی آبشاروں اور حسین مرغزاروں کی سرزمین چترال پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع صوبہ خیبرپختونخوا کا ایک اہم ضلع ہے۔ چترال کے شمال اور مغرب میں افغانستان کے صوبہ جات واخان، نورستان اور بدخشان واقع ہیں مشرق میں شمالی علاقہ جات ، سوات ، کوہستان اور جنوب میں دیر واقع ہے۔
ضلع چترال جنوب میں ارندو جوکہ سمندر سے تین ہزار فٹ بلند ہے سے شروع ہوکر شمال میں بروغل جوکہ سطح سمندر سے 12 ہزار فٹ بلند ہے تک پھیلا ہوا ہے۔ چترال اگرچہ پورا علاقہ ایک وادی کی شکل میں ہے تاہم چترال کے دیہات بھی وادیوں کی شکل میں بلند بالا پہاڑوں کے بیچ واقع ہیں۔ چترال رقبے کے لحاظ سے صوبہ خیبرپختونخوا کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ امسال حکومت کی طرف سے ضلع چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے مگر ہنوز عملی اقدامات نہیں اٹھائے گیے ہیں۔بہرحال چترال کا کل رقبہ 14850 مربع کلومیٹر ہے۔ چترال کے کل رقبے کا صرف 4٪ علاقہ قابل کاشت ہے۔ 16 فیصد حصہ بنجر اور 76 فیصد حصہ پہاڑوں دریاؤں اور ندی نالوں پر مشتمل ہے۔ ضلع کے 289625 حصے میں جنگلات ہیں۔ جنگلات زیادہ تر جنوبی حصے میں ہیں۔
0 Comments