خوشحالی کا بزرگی اور تقویٰ سے تعلق ہے ؟
چند سال ادھر کی بات ہے طلباء کی ایک تنظیم نے کراچی کے ایک مدرسے میں تربیتی پروگرام رکھا تھا جس میں مدارس کے طلباء شریک تھے خصوصی تربیتی خطاب کراچی ہی کے ایک نامور عالم دین کا تھا موصوف نے طلباء کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
دنیا اور معاش کی فکر چھوڑ دو عالم بنو گے تو اللہ تعالیٰ میری طرح تمہیں روزی دے گا جہاں جاتا ہوں لوگ خدمت کرتے ہیں جیب بھر کر واپس کرتے ہیں "
عام طور پر دینی مدارس میں طلباء کی اسی طرح کی ذہن سازی کی جاتی ہے ان کے سامنے کچھ ایسے نامور علماء کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جو خوشحالی کے ساتھ ساتھ پروٹوکول کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں طلباء سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا مستقبل بھی ایسا ہی ہوگا
ہم جب ایک مدرسے میں پڑھتے تھے تو بہت سے اساتذہ اس مدرسے کے بانی بزرگ کی مثال دیتے کہ دیکھو عالم اور بزرگ بنو گے تو اس طرح بہترین کاروں میں سفر کرو گے ، تمہاری زندگی خوشحال ہو جائے گی اور بہت سے طلباء بزرگ بننے کی اپنی سی کوشش بھی کرتے کچھ کو تو ہم نے اس کوشش میں نفسیاتی مریض بھی بنتے دیکھا
عملی زندگی میں آنے اور کچھ سمجھ بوجھ پیدا ہونے کے بعد محسوس ہوا کہ خوشحالی کا بزرگی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو بزرگ خوشحال ہیں وہ بزرگی کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ باپ کی کمائی اور محنت کی وجہ سے ، کچھ والد کے نام کی وجہ سے ،کچھ اچھی پبلک ڈیلنگ کی صلاحیت کی وجہ سے، کچھ مریدوں کے نذرانوں کی وجہ سے اور کچھ ٹقریر و خطابت یا اپنی چرب زبانی کی وجہ سے ، میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ، اگر واقعی بزرگی اور تقویٰ کی وجہ سے دنیاوی خوشحالی ملتی تو رسول خدا کو ملتی ، رسول خدا کی زندگی تو یہی بتاتی ہے کہ جو جتنا بڑا بزرگ ہوگا اس کی زندگی اتنی ہی پر آزمائش ہوگی ، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے آج بھی جن جن بزرگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی بزرگی اور تقویٰ کی وجہ سے خوشحال زندگی گزار رہے ہیں انہی کے اداروں میں ان سے کہیں زیادہ متقی اساتذہ مجاہدے اور عسرت کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اس لیے مدارس میں طلباء کی اس قسم کی ذہن سازی نہیں ہونی چاہیے تاکہ عملی زندگی میں ان کو پریشانیوں اور تضادات کا سامنا نہ کرنا پڑےیف الرحمن لطف
0 Comments