ثریا بی بی اور عبد الطیف پر بے جا تنقید
تحریر: کریم اللہ
ڈپٹی اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی محترمہ ثریا بی بی ان دنوں شدید تنقید کی زد میں ہیں وجہ آپ سب کے سامنے ہیں اس لئے وجوہات پر بات کرنا مناسبت نہیں سمجھتا۔
البتہ میں ڈپٹی اسپیکر ثریا بی بی اور ایم این اے عبدالطیف پر بے جا اور بجا تنقید کے سخت خلاف ہوں صرف ثریا بی بی اور عبدالطیف پر ہی نہیں بلکہ چیرمین تحصیل کونسل سردار حکیم اور چیرمین تحصیل کونسل جمشید میر سے بھی کارکردگی کا پوچھنا احمقانہ فعل ہے۔ کیوں
کیونکہ جن لوگوں نے مذکورہ بالا افراد کو ووٹ دیا ہے بلکہ بھاری بھر کم مینڈیٹ دے کر جتوایا ہے انہوں نے کسی منشور، کارکردگی یا کام کے لئے نہیں بلکہ ان سب کو کہیں نہ کہیں اندھی تقلید اور بت پرستی کے ووٹ ملے ہیں۔ صرف انہیں ہی نہیں بلکہ بسا اوقات ہمارے ووٹ اندھی تقلید، بت پرستی اور تعصبات سے بھر پور ہوتے ہیں۔
مثلا دوہزار آٹھارہ کے عام انتخابات میں ہم سب کو علم تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہو رہی ہے جبکہ دینی جماعتوں کی حکومت بننے کا امکان دور دور تک کہیں نظر نہیں آرہا تھا اس کے باوجود چترال کے حمیت دین سے لبریز طبقے نے مولویوں کو جتوا کر اسمبلیوں میں بھیج دئیے اور ان میں سے ایک صاحب نے مال بنانے میں مصروف رہے جبکہ دوسرے نے جہا د جہا د کا ورد کرتے رہے۔
دو ہزار آٹھارہ میں اگر پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز کوجتواتے تو شاید کچھ نہ کچھ کام ہو جاتے۔
اسی طرح گزشتہ عام انتخابات میں بھی ہم میں سے کسی نے کارکردگی، پلان یا ترقیاتی کاموں کے نام پر نہیں بلکہ قیدی لمبر آٹھ سو چار کے نام پر ووٹ دیا ہے اور قیدی لمبر آٹھ سو چار کی رہائی ہمارے نمائندگان کی ترجیحات میں شامل ہیں تو ہم ان سے کارکردگی یا کاموں کی بابت کیسے
پوچھ سکتے ہیں۔ ؟
(بشکریہ انواز نیوز )
0 Comments