مذہب اور سائنس۔۔۔۔

    انسانی زندگی کا ایک مادی وجود ہے جو اس سے ظاہری طور پر کافی ساری چیزوں کا تقاضا کرتا ہے۔ انسان اپنے جسم کو تکلیف اور مشقت سے بچانے کیلیے نت نئی چیزیں ایجاد کرتا ہے۔ ان ایجادات میں سے زیادہ تر کا تعلق انسانی جسم کو تکلیف اور مشقت سے بچانے سے متعلق ہیں۔ انسان کو سکون کی زندگی جینے کیلیے جسم کا تندرست ہونا اور بہت زیادہ تکلیف سے خود کو بچانے کی ضرورت ہے۔  

جسمانی تندرستی کے ساتھ انسان کو ذہنی سکون کی بھی ضرورت ہے۔ جسکا تعلق روح سے ہے ۔ گویا انسان کے دوسرے وجود کا نام روحانیت ہے۔ جو انسان کی ذہنی سکون کیلیے ممدو معاون ہے۔ جو عام حالات میں بھی ضروری ہے اور کبھی کبھار سفرِ زیست میں ایسے مراحل بھی آتے ہیں کہ انسان ہر طرف سے ناامید ہو جاتا ہے۔ عقل اور سائنس فیل ہوجاتے ہیں تب انسان کو ایک ایسی طاقت کی تلاش ہوتی ہے جو مخیر العقول کارناموں والا ہو ۔ تو ذات باری تعالیٰ سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس واسطے کے تقاضوں کا نام مذہب ہے۔ گویا سائنس اور مذہب کا آپس میں تعلق جسم اور روح کا ہے ۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے کچھ احباب ان دنوں مذہب اور سائنس کو الگ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے دوسرے مذہب کا سائنس سے ٹکراؤ ہو بھی مگر دین اسلام جو قیامت تک آنے والی نسلوں کیلیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ سائنس کیلیے ناگزیر ہے۔ ہم اس مضمون میں اسلام میں علم کی اہمیت اور قرآن اور جدید سائنس کے تعلق کا مختصر خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کرینگے۔

اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلیے صرف یہی کافی ہے کہ اسلام کی بنیاد ہی علم پہ رکھی گئی ہے۔ بلکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پہ نازل ہونے والی پہلی وحی ہی علم سے متعلق ہے

قرآن کے تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا وہ (اِقرَاء)ہے، یعنی پڑھیئے، اور قرآن پاک کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، ارشاد ہے:

"اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے، پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے، اور انسان کو وہ سب کچھ بتادیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا۔"

گویا وحی الٰہی کے آغاز ہی میں جس چیز کی طرف سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے ذریعے نوعِ بشر کو توجہ دلائی گئی، وہ لکھنا پڑھنا اور تعلیم و تربیت کے جواہر و زیور سے انسانی زندگی کو آراستہ کرنا تھا۔ یعنی اسلام کی ابتدا بلکہ دنیا میں نسل انسانی کی ابتداء اور انسان کو فضیلت بھی علم کی بنیاد پہ دی گئی ہے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ء ذرا دیکھیے۔ جس میں اپنی نسل سے ایسے پیعمبر کیلیے دعاء کرتے ہیں، جو علم و کتاب و حکمت کی تعلیم دینے والا ہو۔۔ العرض اسلام میں علم کو جو اہمیت حاصل ہے وہ اہمیت نہ کسی اور مذہب میں علم کو حاصل ہے اور نہ خود اسلام میں کسی اور چیز کو۔۔۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حصول علم کو ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دیا ہے۔ اور اسلام میں کسی مخصوص علم کی بات نہیں ہے، ہر نفع بخش علم کی اسلام میں حمایت کی گئی ہے۔ جبکہ قرآن پاک خود ہی تمام سائنسی علوم کا نچوڑ ہے۔۔ ذیل میں جدید سائنس اور قرآن پاک کے تعلق کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔

قرآن اور طب۔۔ دوسری جنگ عظیم میں روسی افواج نے شہد کو بطور انٹی بائیوٹیک استعمال کیا۔ اور سائنس کے ذرئعے آج ہمیں پتہ چلا کہ شہد میں شفاء ہے جبکہ قرآن نے ساڑھے چودہ سال پہلے ہمیں بتایا تھا کہ شہد میں شفاء ہے۔۔۔

ترجمہ : اس مکھی کے (پیٹ کے ) اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے ۔ سورہ النحل۔۔ 

قرآن میں شہد اس کی تشکیل اور خصوصیا ت کے بارے میں جو علم دیا گیا ہے اسے انسان نے نزول قرآن کے صدیوں بعد اپنے تجربے اور مشاہدے سے دریافت کیا ہے۔

نشانات انگشت ( Finger Prints)

1880 میں سرفرانسس گولڈ (Frances Gold) کی تحقیق کے بعدنشانات انگشت( finger prints) کو شناخت کے سائنسی طریقے کا درجہ حاصل ہوا۔ آج ہم یہ جانتے ہیں۔ کہ اس دنیا میں کوئی سے بھی دو افراد کی انگلیوں کے نشانات کا نمونہ بالکل ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ حتٰی کہ ہم شکل جڑواں افراد کابھی نہیں یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں مجرموں کی شنا خت کے لیے ان کے نشا نا تِ انگشت ہی استعمال کیے جا تے ہیں ۔ کیا کویٔی بتاسکتاہے کہ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کس کو نشانات انگشت کی انفرادیت کے بارے میں معلوم تھا؟ یقینا یہ علم رکھنے والی ذات اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی نہیں ہو سکتی تھی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

ترجمہ:۔ کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے؟ کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور (finger tips) تک ٹھیک بنادینے پر قادر ہیں۔ سورہ قیامہ آیات ¾ 

جلد میں درد کے آخذے ( Pain Receptors)

پہلے عموماً یہ سمجھتے تھے کہ انسان صرف دماغ کے ذریعے محسوس کر سکتا ہے۔ البتہ حالیہ دریافتوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جلد میں درد کو محسوس کرنے والے آخذے (Receptors) ہوتے ہیں۔ اگریہ خلیات نہ ہو تو انسان درد کو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اسکی مثال یہ پیش کی جاتی ہے کہ "جب کوئی ڈاکٹر کسی مریض میں جلنے کے باعث پڑنے والے زخموں کا معائنہ کرتا ہے تووہ جلنے کا درجہ ( شدت) معلوم کرنے کے لیے جلے ہوئے مقام پر سوئی چبھوکردیکھتاہے۔ اگر چُھبنے سے متاثرہ شخص کو درد محسوس ہوتاہے تو ڈاکٹر کو اس پر خوشی ہوتی ہے ۔۔۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ جھلنے والے کا زخم صرف باہر کی حد تک ہے اوردردمحسوس کرنے والے خلیات (درد کے آخذے) محفوظ ہیں۔ اس کے برخلاف اگر متاثرہ شخص کو سوئی چُھبنے پر درد محسوس نہ ہوتو یہ تشویشناک امرہوتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جلنے سے بننے والے زخم کی گہرائی زیادہ ہے اور درد کے آخذے (receptor) بھی مردہ ہوچکے ہیں۔"

درج ذیل آیت مبارکہ میں قرآن پاک نے بہت واضح الفاظ میں درد کے آخذوں کی موجودگی کے بارے میں بیان فرمایاہے:

ترجمہ۔:جن لوگوں نے ہماری آیات ما ننے سے انکار کیا ہے انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب اس کے بدن کی کھال گَل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتاہے اوراپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت کو خوب جانتاہے۔ (سورہ النساء آیت 56)

 معروف ویب سائٹ محدث فورم کے مطابق تھائی لینڈ میں چانگ مائی یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اناٹونی کے سربراہ پروفیسر تیگاتات تیجاشان (Tagatat Tejasen) نے درد کے آخذوں پرتحقیق میں بہت وقت صرف کیا۔ پہلے تو انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ قرآن پاک نے چودہ سو سال پہلے اس سائنسی حقیقت کا انکشاف کیا ہوگا۔ تاہم بعد ازاں جب انہوں نے مذکورہ آیت قرآنی کے ترجمے کی باقاعدہ تصدیق کرلی تو وہ قرآن پاک کی سائنسی درستی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ سعودی عرب کے شہرریاض میں منعقدہ آٹھویں سعودی طبی کانفرنس کے موقع پر جس کا موضوع 'قرآن پاک اور سنت میں سائنسی نشانیاں' تھا انہوں نے بھرے مجمعے میں فخرکے ساتھ کہا۔

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔۔

کائنات کی تخلیق۔ بگ بینگ۔( BIG BANG) 

ہمارے کچھ دوست سٹیفن ہاکنگ سے کافی متاثر ہیں۔ اسکی کتاب (بگ بینگ سے بلیک ہول تک ) کا حوالہ دے رہے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے 

فلکی طبیعیات کے ماہرین ابتدائے کائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے اور جس کا جانا پہچانا نام بگ بینگ یا عظیم دھماکا ہے۔ 

قرآن پاک نے ساڑھے چودہ سال پہلے ہمیں بتایا تھا بگ بینگ سے متعلق۔

 ترجمہ: ’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا‘‘ ( سورہ الانبیاء آیت 30 )

اور ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اسٹیفن ہاکنک نے اپنی کتاب ( اے بریف ہسٹری آف ٹائم ) میں انکشاف کیا ہے کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے۔ جبکہ آج سے ساڑھے چودہ سال پہلے عرب کے ریگستان میں پیدا ہونے والے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے ذریعے ہمیں بتایا تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔

والسماء بنیناھا باید وانا لموسعون۔

ترجمہ: ’’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘  

العرض محقیقین کے بقول قرآن کی چھ ہزار آیات میں سے ایک ہزار سے زائد آیات سائنس سے متعلق ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مذہب یا دین اسلام سائنس کی ضد ہے۔ معذرت کے ساتھ اسے دین اسلام کا علم بالکل نہیں۔ ہاں اگر کوئی مذہبی شخص یا راہنماء ذاتی طور پہ سائنسی ایجادات کا مخالف ہے تو یہ اسکی ذاتی رائے ہوسکتی ہے۔ وہ اسلام کے اصل روح سے واقف نہیں۔ اور بد قسمتی سے وہ اسلام کی غلط تشریح کر رہا ہے۔ ورنہ علماء امت کا کسی غلط رائے پہ کبھی اتفاق نہیں ہوا۔۔