کھوار موسیقی
حسِ لطیف اور جمالی ذوق کو جلا بخشنے والی اس جنس سے بے بہرہ ہوں مگر کور ذوق نہیں۔ یہ بہت ہی پھیلا ہوا فیلڈ ہے۔ دھُن، راگ، لے، سُر، ہمیں یہ نام اور تعریف ہی سمجھ آگئی تو غنیمت ہے۔ یا اچھی اور بری شاعری میں تمیز کر پائے تو بھی طرہ امتیاز ہے۔ عام آدمی کا کا م یہ نہیں کہ وہ آلاتِ موسیقی اور ان کے استعمال، موسیقار کی نفس شماری اور شاعری کے اوزان و تقطیع کرنے بیٹھ جائے۔ یہ Layman کا کام نہیں ہوتا۔ اس لیے ہماری بات ایک لے مین کی بات ہے۔
ذاتی طور پر موسیقی اور شاعری بلکہ فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی ہر صنف کے ایجاب و قبول کے لیے ایک سادہ سا فارمولا رکھا ہے اور میرے خیال میں ہر لے مین کو رکھنا چاہئے۔ کسوٹی یہ کہ جو آپ کی حسِ لطیف کو حسن و جمال بخشے، اس کو لے لو۔ ٹرینڈ کے پیچھے، ناقدین کی آرا کے پیچھے مت جاؤ۔ جو پسند آئے اس کو اوکے کر دو۔ نہیں تو بھی دیکھ لو کہ اس کے شہر شہر چرچے ہیں۔ حاصل کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو۔
اصل بات پر تھوڑی دیر میں آتا۔ ایک اور بکواس کر لینے دیں۔
کھووار موسیقی میں سب سے پہلے تو اس نادیدہ پن سے چھٹکارا حاصل کیا جائے کہ موسیقار، اس کے آبائی گاؤں، چند الفاظ میں گاؤں کی تعریف اور اس کے بعد گائک کا تعارف و تعریف نہ کی جائے۔ واللہ بہت گندے دکھتے ہو۔ صرف موسیقی اور شاعر کے تذکرے کو بندہ ہضم کر سکتا ہے مگر اس فرمائشی حضرت کی بھی حمد و ثنا ہوتی ہے۔ اس تحسین آمیز تعارف میں گاؤں کا نام ضرور مینشن ہوتا ہے۔
بھائی بس بھی کر دو۔ آرٹ اور آرٹسٹ اپنا ایک تعارف، اپنا ایک نقشِ پا اور فنگر پرنٹس رکھتے ہیں۔ ان کو کبھی اس طرح کا تعارف نہیں چاہئے۔منصور چاہے تو سولی پہ لٹک جائے گا مگر پانچ منٹ کے گانے میں اپنا تعارف نہیں کروائے گا۔ نغمہ کو اس کی ضرورت نہیں۔ نورجہاں ہو کہ مہدی حسن کہ رفیع اورلتا جی کبھی اپنا تعارف پیش نہیں کریں گے۔ نہ ہی ساحر لدھیانوی اور کیفی اعظمی کا نام لیا جائے گا۔اے آر رحمان کو یہ کہنے, کہلانے کی ضرورت نہیں کہ اس گیت کی کمپوزیشن اس نے کی ہے۔ تب اس کی ضرورت بھی تھی۔ یہ کوئی اسی ستر کی دہائی تو نہیں۔ اب شاعر سے لے کر فرمائشی تک کا نام پتہ نیچے لکھنے اور تصویر اوپر چپکانے کی سہولت موجود ہے۔ تب لوگوں تک صرف آواز پہنچتی تھی۔ نو ویژوئل۔ چھو لا یار۔ گانو موژی ہے مہترارانان تذکرو کیہ ضورت۔ اوہ۔ اسٹوڈیو بھول گیا۔ یہ گانا جہاں رکارڈ ہو رہا ہے، اس شہر، پنڈ اور اسٹوڈیو کا تعارف بھی ناظرین و سامعین کے گوش گزار کرایا جاتا ہے۔
شیلی شیلی دیہ شیشی کوہ و سوم تعلق لکھک، مالک جان مالک و نیوشیور شیلی شیلی کلام غمگین خان غمگین تان پرسوز اور دردار ٹپ ہوازا پسیہ خدمتا پیش کوسیاں، شاہ جہاں اسٹوڈیار۔ وا ہے گانو پچین فرمائش کوری اسور جنت نظیر شیشی کوہ و سوم تعلق لاکھک مالک خان مالک۔ اوئے۔ مجھے مارو۔ اتے موشو راردو۔ تو حور بیتی ہیس کی جنت ہوئی اوا یہ بیارین تان بیریر تو بیم۔
یہ نادیدہ پن ہے؟ مالی مجبوری ہے؟ شہرت اور ناموری کی بھوک ہے؟ کیاغ دی کی بیرائی مہ کیہ خوش نو۔
اب دوسری اسی طرح کی اصل بات سے پہلے کی بات۔ یارا مان لو کہ ہماری شاعری اس لیول کی نہیں ہے۔ موسیقی والی شاعری اور دوسری والی دو الگ اشیا ہیں۔ ان پر کافی ریاض ہوتا ہے۔ دوبئی ہوتی ہے۔ پورا مڈل ایسٹ ہوتا ہے۔ ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اور چاہو تو مان لو کہ ہماری شاعری موسیقی والی نہ ہونے کے علاوہ معیاری بھی نہیں۔ اب کیا یہاں لکھیں کہ کیسے کیسے نثری فضول خیالات باندھے ہیں۔ واللہ بعض پر غصہ اور بعض پر بھی ہنسی نہیں، غصہ ہی آتا ہے۔ یہ ایک بار کسی محفل میں سنانے کی بات نہیں ہوتی اور تم عرصے تک پورے عوام کو اذیت دو گے۔ سیدھا سادا مقدمہ درج ہونا چاہئے۔ فائن نہیں ہونی چاہئے۔ نہ ہیں۔ نہ دیں گے۔
اچھا۔ وہ اصل بات اب کرتا ہوں۔ واللہ کوئی ایسی بات نہیں۔ موڈی آدمی ہوں۔ درویش فقیر ہوں۔ جنون میں بک رہا ہوں۔ کسی سے پرخاش کا خیال نہیں۔ کسی کو ہدف نہیں بنا رہا۔ میں گانے وانے سنتا بھی نہیں۔ جہاں ہیں، سامنے ہمارے ایک دوست کا ہوٹل ہے۔ عمران صاحب نے ایک قاری صاحب کو بھرتی کیا ہے۔ان کے پاس ایک وہ لائٹ والا لاؤڈ اسپیکر ہے۔ وہ صبح کی نماز کے وقت ایک نظم لگاتا ہے اور شام تک وہی چلتی ہے۔ میں پورا دن اور رات گیارہ بجے تک وہی سنتا ہوں۔
چل چل
دین کے تبلیغ میں چلنے کا مزا دیکھ
اللہ کے راستے میں نکلنے کا مزا دیکھ
ایک ہفتے سے میں یہ سن رہا ہوں۔ پورے بازار کو گن پوائنٹ پہ سنایا جا رہا ہے۔ آڈیو کی سہولت نہیں۔ ورنہ آپ کو ابھی سناتا۔ دو گھنٹوں سے بج رہی ہے۔
0 Comments