عجب کرپشن کی غضب کہانی
وقاص احمد ایڈوکیٹ کے ویڈیو پیغام سے موٹی خبر یہ برآمد ہوتی ہے کہ تورکھو روڈ پر چار ادوار میں پیسے خرچ ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ تورکہو روڈ کے لیے رقم مرکزی حکومت کی طرف سے ملتی ہے اور خرچ صوبائی حکومت کا ادارہ کررہا ہوتا ہے۔
2009 سے 2012 تک ایم پی اے الحاج غلام محمد کا دور۔۔۔ سرکار کی طرف سے 20 کروڑ روپے ملے اور خرچ ہوئے۔
2013 سے 2017 ۔۔۔ دور سید سردار حسین شاہ۔ تین سال کام بند رہا گزشتہ کرپشن کی انکواری ہو رہی تھی۔ ایل او ایل۔ آخری سال 10 کروڑ نکلے اور خرچ ہوئے۔
2018 سے 2023 تک مولانا ہدایت الرحمان کا دور۔۔۔ کل 62 کروڑ روپے ریلیز ہوئے اور خرچ ہوئے۔
2024 ۔۔۔ دور ڈپٹی اسپیکر محترمہ ثریا بی بی۔۔۔۔ اب تک 9 کروڑ 4 لاکھ روپے ادا ہوئے ہیں۔
چونکہ فناشل اسٹیٹمنٹ سال کے درمیان سے اگلے سال کے درمیاں تک ہوتا ہے سو کہیں یہ بھی ممکن ہے کہ جو رقم غلام محمد دور کے آخری سال ریلیز ہوکر خرچ سردار حسین کے اولین دور میں یا پھر سردار حسین دور کے آخری سال نکلی ہوئی رقم کا کچھ حصہ ہدایت الرحمان دور میں بھی خرچ ہوسکتا ہے۔ اس لیے اوپر کا ڈیٹا پانچ دس کروڑ آگے پیچھے ہوسکتا ہے جس سے ویسے تو کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ پانچ دس کروڑ ہی تو ہیں اور وہ بھی سرکار کے۔ اس کے باوجود بھی اگر غلطی سے آپ کے کسی پسندیدہ لیڈر کے دور کا رقم کسی اور کے کھاتے میں چلا گیا ہو تو معافی چاہتا ہوں۔
ایک آخری بات کہنی ہے۔ یہ کہ صوبائی اسمبلی کے ممبران سی اینڈ ڈبلیو سے کمیشن کھاتے ہیں یا نہیں مجھے نہیں پتہ۔ اگر لینے دینے کا واقعی کوئی سسٹم ہے تو طریقہ کیا ہوتا ہے وہ بھی نہیں جانتا۔ ٹھیکداری یا کمیشن سسٹم کی شد بد تک سے واقف نہیں اس لیے کسی پر الزام نہیں لگا سکتا۔
ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ 2010 میں شروع ہونا والا منصوبہ اب تک جاری ہے اور وہ بھی عوامی شکایت اور احتجاج پر۔ کام کی کوالٹی اور کاغذی منصوبے میں فرق نہ ہونے کا تو مملکت خدداد میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ چونا تو لگا ہی ہوگا۔ تو بات یہ تھی کہ اس سب کے باوجود غلام محمد، سردار حسین اور ہدایت الرحمان اور ثریا بی بی کے گُن گانے والے ایک نظر اس منصوبے کی طرف دیکھنے کے بعد اپنی آستینوں میں منہ نہیں چھپا رہے ہو تو یقین مانیے کہ تم سب شرم پروف سے بھی آگے کی کوئی چیز ہو۔
0 Comments