چار برس اُدھر کی بات ہے......جب ہم چند دوستوں نے سوشل میڈیا پر چترال میں ایک دیوارِ مہربانی کے قیام کی بات چھیڑی...... ایک دو دفعہ اس موضوع پر چند ہم نفسانِ خوش گزراں کی اکٹھ بھی ہوئی....... اس وقت کے صدر تجار یونین بھی پکچر میں آگئے........ سوشل میڈایائی دوستوں نے بھی ہاں میں ہاں ملایا..... بس منزل دو چار قدم لبِ بام رہ گئی تھی کہ کرونا وبا کی شدت میں اضافہ ہوا. یوں سارا منصوبہ چوپٹ ہوگیا ......خلقت میں خوف پھیلا، لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے گریزاں ہوگئے،اس عالم میں ایک دوسرے کا اُترن کون پہنے.... ہم سب گھروں میں دبک کے بیٹھ گئے........ وبا کی قبا اتری تو سب اپنے اپنے دھندوں میں گُم ہوگئے....... ہم ازلی بھلکڑ قوم، بڑے بڑے واقعات کو لمحوں میں بھول جانے والی، ایک چھوٹی سی مہربانی کی دیوار بھلا کیا شے ہے..... کَل صبح سویرے بائیک پر سکول جاتے ہوئے بادِ مخالف کے تُند و تیز تھپیڑوں نے ہمیں دیوارِ مہربانی کی دوبارہ یاد دلادی........
تو یارو! کیا خیال ہے.... ایک دوسرے کے درمیان سینکڑوں قسم کی دیواریں کھڑی کرتے کرتے کیوں نہ اس دفعہ ایک ایسی دیوار بھی کھڑی کی جائے جس سے کسی محروم کو فائدہ ہو... مہنگائی کا جن سرِ بازار ناچ رہا ہے.....ہمارے آس پاس ایسے لوگ بھی ہیں جو لنڈا بازار سے سیکنڈ ہینڈ پہناوا خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے..... اس ضمن میں مہترِ چترال ثمہ ایم پی اے جناب فاتح الملک علی ناصر صاحب ہماری مدد کر سکتے ہیں... بس ہمیں کچھ نہیں ایک دیوار چاہیے... جو بازار کے قرب وجوار میں کہیں سڑک کے پہلو میں استادہ ہو.... کسی سرکاری عمارت کی دیوار بھی چل سکتی ہے.... کسی عوامی انسٹالیشن کی سدِ بلند بھی کام آسکتی ہے..... دیوار کی دستیابی کے بعد تھوڑی بہت آرائش و زیبائش کی ضرورت ہوگی.... اور پھر دیوار ہوگی اور ہمارے سخی اور فیاض چترالی ہوں گے... جو اپنے پرانے، نئے پہناوے دھو کر صاف ستھرا کرکےسیلقے سے اس دیوار پہ لاکے آویزاں کریں گے اور معاشی طور پر کمزور اور لاچار لوگ وہاں سے اٹھا کر لے جائیں گے....
2 Comments
Nice idea
ReplyDeleteNice
ReplyDelete