ریاض میں رقص و موسیقی کی خبروں سے پاکستان میں بڑی پریشانی پائی جاتی ہے۔ جدت پسند اور شدت پسند دونوں شش و پنج میں ہیں کہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔
برصغیر انگریزی دور میں سیاسی عمل سے آشنا ہوا۔ سیاسی عمل سے مراد امور مملکت میں عوام کا عمل دخل ہے، جو انتخابات، حکومت سازی، حکومت کی عوامی تنقید اور رائے عامہ کے قانون/پالیسی سازی پر اثر سے عبارت ہے۔ اگرچہ آزادی سے پہلے اور بعد میں ہمارے ہاں سیاسی عمل اپنی مکمل شکل میں کبھی بروئے کار نہیں آیا، تاہم عوام جزوی طور پر ہی سہی، کچھ نہ کچھ کار سرکار میں شامل رہے ہیں۔ اس کے علاؤہ عوام میں ایک مضبوط احساس موجود ہے کہ امور مملکت ہمارے خیالات کے مطابق چلیں۔ ہم آج آئین اور قوانین کی جو شکل دیکھتے ہیں اس کا غالب حصہ عوامی خواہشات کی آئینہ داری کرتا ہے۔ خصوصاً آئین اور قانون پر اسلامی تعلیمات کا جو اثر موجود ہے وہ صرف اور صرف عوامی خواہشات کو مد نظر رکھ کر شامل کیا گیا ہے۔ ان اسلامی دفعات کے پیچھے مضبوط عوامی حمایت ہی ہے جو ان میں کسی تبدیلی کی کوشش کو روکتی ہے۔ نیز معاشرے میں اسلام کے منافی سرگرمیوں کا انعقاد بھی اسی لیے ناممکن ہے کہ عوامی رائے انہیں پسند نہیں کرتی۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کا نظام جس قدر بھی اسلامی ہے وہ عوامی رائے کی وجہ سے ہے، کسی بابائے قوم یا حکیم الامت کی خواہش کے مد نظر نہیں۔
جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے، وہ ایک بادشاہت ہے۔ وہاں تمام اقتدار ایک حکمران کے ہاتھ میں ہے۔ عوامی رائے اور سیاسی عمل جیسے تصورات اس ملکی نا پید ہیں اور ان کی بات کرنا جرم تصور ہوتا ہے۔ قانونی طور پر ہمارے ہاں جو حیثیت عوامی رائے کو حاصل ہے وہ حیثیت سعودیہ میں بادشاہ کی رائے کی ہے۔ بادشاہ کا مزاج جیسا ہو، مملکت کے قوانین اور اس کی پالیسیاں انہی خطوط پر استوار ہوتی ہیں۔ کوئی مذہبی ذہن کا آدمی بادشاہ بن جائے تو ملک کا نظام کٹر مذہبی ہو جاتا ہے اور جب کوئی جدت پسند بادشاہ بن جاتا ہے تو پورا ملک جدت پسندی کی راہ پر چل نکلتا ہے۔
ہم سعودیہ کے حالات دیکھ کر کنفیوز اس لیے ہوتے ہیں کہ ہم اس کے حالات کو اپنے حالات پر قیاس کرتے ہیں۔
اقبال نے کہا تھا کہ "اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر". صرف اقوام مغرب ہی نہیں، کسی بھی قوم سے قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ملک و ملت کے اپنے حالات ہوتے ہیں۔
0 Comments