میں اپنے کچن کی کھڑکی سے باہر جھانک کر سفید آسمان کو تک رہی ہوں۔ آستانہ، قزاقستان میں یہ میرا تیسرا سال ہے اور ہر سال سردیوں میں آسمان یہاں دودھ جیسا سفید دکھتا ہے۔ اس صحبت میں، مجھ جیسی لڑکی، جسے چاند اور ستاروں سے بےانتہا محبت ہے، اس  کے دل میں اداسی کے عالم تو چھا ہی جاتے ہیں۔ اور  ایسا لگنے  لگتا ہے کہ شاید  جگجیت سنگھ کی غزلیں نہ ہوتیں تو زندگی بسر کرنا ویسے تو مشکل ہے ہی، اور دشوار ہوتی۔


کبھی کبھی تاریکی میں  چیزیں صاف نظر آتی ہیں،شاید اسی لئے اکثر میرے کمرے کی بتیاں بجھی ہوئی ملیں گی۔  اس وقت "تم کو دیکھا تو خیال آیا" کی دھن میں مگن، جس شدت سے سفید آسمان سے میں جڑ گئی ہوں، وہ الفاظ میں تو بیان نہیں ہو سکتے، مگر کوشش کرنے میں کیا دشواری۔ 


میرے  ذہنی تخیل میں بہت سارے واقعات  گردش میں ہیں اس وقت۔ زندگی کی تیز رفتاری سے پریشانی بھی ہوتی ہے اور بیک وقت زندگی کا ایسے لگنا کہ ایک جگہ رکی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے ہم کئی صدیوں سے یہاں قیام ہیں۔ مجھے الجھن میں ڈالتی ہے۔ یہ الجھن کبھی نہیں سلجھتی۔ لیکن قدرت نے انسان کو ایک عظیم شے سے مالامال کیا ہے، وہ ہے "احساس"۔ تو پھر دورانِ لکھائی  میں رک کر ایک سپ قہوہ پی  کے  پھر جب اپنے اندر  جھانکتی ہوں، تو مجھے میرا گھر یاد آتا ہے۔ وہ گھر، جہاں دیواروں سے جڑی یادیں صرف آرائش نہیں بلکہ قصے سناتی ہیں، جہاں برتنوں کی کھنک اور ہنسی کی گونج دل کو یقین دلاتی تھی کہ ہم ایک جڑے ہوئے خاندان کا حصہ ہیں۔ وہ بچپن، جب ہر چیز بےعیب لگتی تھی، جہاں ہر موسم ایک نئی کہانی لے کر آتا تھا، اور محلے کی گلیاں ہماری چھوٹی دنیا کا مرکز تھیں۔ وہ لمحات، جب دسترخوان پر سب کا اکٹھا ہونا زندگی کی سب سے بڑی تقریب لگتا تھا، اور ہماری ہنسی کسی بھی پریشانی کو دور کر دیتی تھی۔


مگر آج کی دنیا، چاہے کہیں بھی ہوں، ایک عجیب تنہائی میں مبتلا ہے۔ یہ صرف میری کہانی نہیں، بلکہ ہماری پوری نسل کی حقیقت ہے۔ ہم سب اپنی جگہ پر محفوظ، جدید سہولیات سے مزین، اور زندگی کی دوڑ میں کامیاب نظر آتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایک غیر محسوس بیگانگی ہم پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ دنیا، جو تکنیکی ترقی اور آسانیوں سے بھری ہوئی ہے، ہمیں ایک دوسرے سے جتنا قریب لاتی ہے، شاید اتنا ہی اندر سے دور کر دیتی ہے۔ ہم تعلقات کی ظاہری شکلیں تو بنا لیتے ہیں، لیکن دلوں کی گہرائی میں وہ اپناپن، وہ وابستگی مفقود ہو چکی ہے۔


خاموشی کی اس بظاہر دھن میں پھر مجھے خیال آنے لگتا ہے کہ خاموشی ایک عبادت ہے، جس کی کیفیت میں کیا سے کیا ہوئے ہم، کیا سے کیا ہوں گے کی سوچ میں عنقریب اُس رب کی طرف رُخ کرتے ہیں جو مشکل سے مشکل ترین لمحوں میں ایک سہارا ہے۔ یعنی، خدا کو یاد کرنا، اس کی بنائی ہوئی دنیا میں رہ کر، اس کی دی ہوئی زندگی میں اسی کو تلاش کرنا۔ اور کمرے کی بتی بجھا کر اندھیرے میں روشنی کا اپنے اندر نظر آنا اور اس لمحے میں سکون طاری ہونے کی کیفیت میں، مجھے رب سے ایک تعلق کا احساس ہوتا ہے۔ یہ احساس، کہ سب کچھ چھن جانے کے بعد بھی، ایک دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، وہی میری زندگی کا اصل سکون ہے


رخشندہ شاکر 

۱۲/۰۲/۲۰۲۴۔   

آستانہ قازقستان