اچھے بچے بننے کے اشارے
آخری کال پر لبیک کہتے ہوۓ جب آخری معرکہ سر کر چکے تو غازیوں نے مانسہرہ میں پڑاؤ ڈال کر تھکان مٹائی اور دوسرے دن صوبائی اسمبلی کے فلور پر مقررین نے اپنی شعلہ بیانی کے ایسے جوہر دکھاۓ کہ سماں بندھ گیا۔ ایسے ہی کسی موقع پر مرحوم رئیس امرہوی نے کہا تھا
جب دیکھئے تقریر میں ہنگامہ فشاں ہئے
کچھ ہجو ہئے کچھ مدح ہئے کچھ آہ و فغاں ہئے
وہ کیا فتنۂ محشر مرا طرز بیاں ہئے
دو گز کا اگر قد ہئے تو دس گز کی زباں ہئے
بین السطور تقریروں میں اس ساری معرکہ آرائی کی روداد اور مہم جوئی کی کارگزاری تھی۔ کچھ گلے شکوے ارباب بست و کشاد سے بھی تھے کہ انہوں نے انقلاب کی سجی سجائی طلائی طشتریاں پیش نہیں کیں جو ان کی نازک مزاجی پر بار گراں گزری۔ کچھ قصیدے ان جری جوانوں اور جانبازوں کے بھی بیان کئے گئے جنہوں نے راستے میں آنے والی رکاوٹیں کیسے ہٹائیں اور مخالف دستوں کے کیسے چھکے چھڑادئے۔ کچھ گلے شکوے اپنوں کے پلے بھی باندھ دئے گئے جن کی کمک اور آشیر باد سے یہ لوگ محروم رہے۔ آخر میں اشاروں اور کنایوں میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوۓ ایک بار پھر پوری طاقت اور لاؤ لشکر کے ساتھ حملہ آؤر ہونے پر اتفاق کیا گیا۔
دوسری طرف سے بھی خبریں برابر سننے کو مل رہی تھیں جو بظاہر ذیادہ مختلف تو نہ تھیں لیکن ان کے اندر سے ارادے کچھ ذیادہ سخت لگ رہے تھے۔ کیوں کہ ان کے ہتھے کوئی چار ہزار ایسے افراد چڑھے ہوے تھے جن کی بابت پارہ چڑھنا فطری امر ہئے۔ یہ پیشہ ور جنگجو تھے اور ان کی اکثریت بدیسی تھی۔ کیوں کہ آپنوں کو تو Safe passage دیا گیا تھا۔ اپنوں سے یہ امید نہ تھی کہ وہ بدیسیوں کو استعمال کریں۔
خیر ہم جیسوں کی حیرانی اس وقت ختم ہوئی جب دوسری بار صوبہ خیبر پختونخواہ کے بڑوں کی بیٹھک لگی اور سب سے بڑے نے کہا کہ بس بہت ہوگیا۔ ہم نے بہت کچھ کھویا ہم مزید مہم جوئی اور محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں اپنا جارحانہ رویہ چھوڑ دینا چاہئے۔ یہ جو باہر بیٹھ کر ہمیں لڑارہے ہیں انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں۔ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان کی سیاست کرنی چاہئے۔ انہوں نے حاضرین سے معافی مانگی
0 Comments