"سیاحت کی ترقی یا انسانی جانوں سے کھیل؟ خیبر پختونخوا کا امتحان"
تحریر: توصیف احمد
ہمارے ملک کا انتظامی نظام اُس وقت حیران کن چُستی اور توانائی کا مظاہرہ کرتا ہے جب بات اقتدار، سیاست یا پروٹوکول کی ہو۔ اگر اسلام آباد میں دھرنا ہو، تو خیبر پختونخوا حکومت کی مشینری کنٹینرز ہٹانے کے لیے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کر کے فوراً پہنچ جاتی ہے۔ اگر پی ایس ایل کا میچ ہو اور میدان کے ایک کونے میں پانی کھڑا ہو، تو اُسے سُکھانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
لیکن جب بات عوام کی ہو، جب ایک غریب یا عام شہری پانی میں پھنسا ہو، سڑک پر تڑپ رہا ہو، یا دریا کے بیچ موت سے لڑ رہا ہو، تو وہی مشینری خاموش کیوں ہو جاتی ہے؟ کہاں ہیں وہ ہیلی کاپٹر، کہاں ہیں وہ ادارے، کہاں ہے وہ ریاستی حرکت جو طاقتوروں کے لیے لمحوں میں بیدار ہو جاتی ہے؟ یہی وہ تلخ سچ ہے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہماری ریاستی ترجیحات واقعی عوام کے لیے ہیں یا صرف مخصوص طبقوں تک محدود رہ گئی ہیں؟
حال ہی میں سوات کے منگورہ بائی پاس کے قریب دریائے سوات میں پیش آنے والا واقعہ ایک افسوسناک مثال ہے۔ سیالکوٹ اور مردان سے تعلق رکھنے والے 19 سیاح، جو خوبصورت وادیوں کی سیر کے لیے آئے تھے، دریائے سوات کی موجوں میں کئی گھنٹے زندگی کی جنگ لڑتے رہے۔ وہ مدد کے منتظر رہے، لیکن ریاستی نظام، جو دھرنوں کے وقت لمحوں میں حرکت میں آ جاتا ہے، یہاں مکمل خاموش رہا۔ نہ کوئی ریسکیو ٹیم پہنچی، نہ ہی کوئی ہیلی کاپٹر، نہ کوئی ضلعی افسر۔ آخرکار وہ تمام نوجوان موت کے منہ میں چلے گئے۔
یہ سانحہ محض ایک حادثہ نہیں، بلکہ پورے ریاستی رویے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت ہر سال سیاحت کے فروغ کے بڑے دعوے کرتی ہے۔ اشتہارات، کانفرنسیں، اعلانات، اور یہ دعویٰ کہ "خوبصورت خیبر پختونخوا" اب سیاحوں کے لیے محفوظ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان علاقوں میں نہ ایمرجنسی رسپانس کا نظام موجود ہے، نہ سیاحتی رہنمائی، نہ بروقت مدد کی سہولت۔ وہ تمام وعدے صرف کاغذی دعوے ثابت ہوتے ہیں، جب زمینی حقیقت میں انسانی جانیں پانی میں ڈوبتی نظر آتی ہیں۔
ریاستی مشینری صرف طاقت اور سیاست کی خدمت میں کیوں متحرک ہوتی ہے؟ جب عوام بے یار و مددگار ہوں، ان کی جان داؤ پر لگی ہو، تب وہی مشینری بےجان کیوں ہو جاتی ہے؟ کیا حکومت کا فرض صرف حکمرانوں کا تحفظ ہے؟ کیا عوامی جانوں کی کوئی قدر نہیں؟
اگر واقعی سیاحت کو فروغ دینا ہے تو صرف سڑکیں اور ہوٹل کافی نہیں، بلکہ محفوظ سیاحت کے لیے عملی اقدامات، ریسکیو ٹیموں کی موجودگی، ہنگامی ہیلی کاپٹر سروس، اور ایک فعال الرٹ سسٹم بھی ضروری ہے۔
یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں صرف منصوبے اور نعرے نہیں، بلکہ نیت، ترجیحات اور عملی نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایسے سانحات ہوتے رہیں گے، اور عوام ہمیشہ بےبس رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی بصیرت عطا فرمائے کہ ہم انسانی جان کو سب سے قیمتی سمجھیں، اور ہماری حکومتیں وعدوں سے نکل کر عمل کی راہ اپنائیں۔
آمین۔
0 Comments