قاری عبد الرحمن قریشی چترال کے سیاسی، سماجی اور علمی حلقوں میں ایک معتبر نام ہے آپ کا حلقہ ء احباب اور دائرہ ء تلامذہ لواری تا بروغل پھیلا ہوا ہے۔ ارندو سے لے کر تورکھو کے آخری دیہہ کھوت تک شاید ہی کوئی قریہ ہو گا جہاں آپ کے تلامذہ ، مریدین اور فیض یافتگان نہ رہتے ہوں  بہت سوں کی نظر میں قاری صاحب کا کل تعارف ایک قدآور سیاسی لیڈر یا جمعیت علماء اسلام کے سابق امیر کے طور پر ہے۔ آپ کی سیاسی خدمات بھی اپنی جگہ، سیاسی حیثیت بھی ناقابل ِ انکار  لیکن آپ کی ٹھیٹھ دینی خدمات کا دائرہ آپ کی روایتی سیاسی خدمات کے دائرے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ 


قاری عبد الرحمن قریشی کی زندگانی کے چار حصے کیے جائیں تو عہدِطفولیت اور زمانہء طالب علمی کا عرصہ نکال کر چاروں کے چاروں حصے قرآن و سنت کی نشر و اشاعت کے لیے وقف نظر آئیں گے۔

1988 کو آپ کی فراغت ہوئی۔ فراغت کے بعد عملی زندگی میں قدم رنجہ فرمانے سے پہلے تبلیغ کے لیے نکل گئے تبلیغ میں سال دو سال لگانے کے بعد علم کا چراغ ہاتھ میں تھامے میدانِ خدمت میں اترے۔  پہلے شاہی مسجد کے ایک کونے میں مسند نشین ہو کر بچوں کو قرآن پڑھانا کرانا شروع کیا۔ سابقے میں لفظِ مولانا کی بجائے لفظِ  "قاری" شاید اسی دور کی یادگار ہے۔  

2001 کو  وفاق المدارس سے منسلک اکلوتے مدرسے کے مہتمم بھی بنے اور اور وفاق المدارس ضلع چترال کے اولین مسؤل بھی۔ بطور ِ مسؤل آپ نے اپنی زمہ داری خوب نبھائی۔ آپ کی خداداد صلاحیتوں کو دیکھ کر خدام القرآن ٹرسٹ کے زمہ داروں نے آپ کو ضلع چترال کا سرپرست مقرر کیا۔ بطور سرپرست آپ نے ٹرسٹ کے قائم کردہ سینکڑوں مکاتب کی سرپرستی بطریق احسن نبھائی ۔ اِن دنوں آپ جامعہ اسلامیہ ریحانکوٹ کے منتظم و مہتمم کے طور پر خدمات میں مصروف ہیں۔ جامعہ اسلامیہ ریحانکوٹ کا تعارف خود اس کے طلبہ ہیں۔ ابتدائی درجات یہاں پڑھنے کے بعد یہاں کے طالب علم جس مدرسے میں بھی جاتے ہیں ، علمی و فنی استعداد کے حوالے سے ممتاز بھی نظر آتے ہیں اور منفرد بھی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مدرسے میں پڑھائی خوب ہوتی ہے۔

میرا قاری صاحب کے ساتھ پہلا تعارف کوئی بیس بائیس سال قبل ایک سفر میں ہوا تھا۔ یہ سفر چترال سے پشاور کی طرف تھا اس سفر سے ہی قاری صاحب کا جو نقشہ زہن میں منقش ہوا تھا وہ  ایک ایسا مہتمم کا تھا جو انتہائی خوش مزاج، سخی اور اپنے طالب علموں کا انتہائی خیال رکھنے والا ہے۔ 

گزشتہ پیر کو منعقد ہونے والی اقرا ایوارڈ کی تقریب میں دینی علوم بالخصوص قرآن کریم کی شاندار خدمت پر قاری عبد الرحمن صاحب کو بجا طور پر اقراء ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ جہاں ایک طرف قاری صاحب کی شاندار خدمات کا اعتراف ہے وہاں دوسری طرف اقراء ایوارڈ کے منتظمین کی مردم شناسی بھی ہے انہوں نے اس ایوارڈ کے لیے ایسے بندے کو چنا ہے جو ہر زاویے سے اس ایوارڈ کا مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ قاری صاحب کو لمبی عمر عطا فرمائے۔ 

واضح رہے کہ ایوارڈ کی مناسبت سے یہ چند سطور قاری صاحب کی شخصیت کے صرف ایک پہلو پر لکھے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ قاری صاحب کی شخصیت کے دیگر پہلو بھی طشت از بام ہونے کے متقاضی ہیں