#چترالیوں_کو_سلام
کسی بھی علاقے میں لوگوں کے رسم رواج ۔ طرزِ زندگی اور
انکا مزاج سمجھنے کیلیے 5 سال بہت ہوتے ہیں ۔ میں چترال میں 5 سال گزار کر پکا چترالی بن گیا تھا اور اب تک ہوں ۔ میری چترال پوسٹنگ ہوٸی تو پتہ چلا کہ اگر چترالی زبان سیکھ کر کوٸی فوجی اسکا امتحان بھی پاس کرلے تو ایک اسپیشل لینگوایج الاٶنس تنخواہ کے ساتھ ملنا شروع ہوجاتا ۔ 1984 میں میری کیپٹن رینک میں کل تنخواہ 3200 روپے ہوتی تھی ۔ ان حالات میں چترالی زبان بولنے پر الاٶنس ملنا غنیمت لگتا تھا تو زبان سیکھنے پر خوب زور لگایا۔
میں چونکہ سارا دن مریضوں کے ساتھ بات کرتا تھا اس لیے چترالی زبان سیکھ کر 3 ماہ میں ہی امتحان پاس کرلیا ۔ مزے کی بات تھی کہ میں اکثر مریضوں سے چترالی زبان میں سوال کرتا مگر وہ پھر بھی اردو میں ہی جواب دیتے اور کٸی لوگ کہتے کہ آپ چترالی زبان سمجھو گے نہیں اور غلط دواٸی دے دو گے ۔ ہمارے ساتھ اردو بولو اردو تاکہ ہمارا بیماری سمجھو ۔
ایک بات کرنل مراد خان نیر اکثر مزے لے لے کر سناتے تھے ۔ تاریخ تو یاد نہیں ۔ بیگم نصرت بھٹو محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہمراہ چترال آٸیں ۔ لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔ بیگم نصرت بھٹو اسٹیج پر آٸیں تو نعرہ گونجا ”تیرا بیگم میرا بیگم نصرت بیگم ۔ نصرت بیگم“ انتظامیہ کے سب لوگ ایک دم پریشان ہوگٸے کہ ورکرز کو کون سمجھاٸے کہ وہ کیا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ بیگم نصرت بھٹو اسٹیج پر کھڑی مسکراتی رہیں مگر یہ نعرہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ سیاسی لوگوں نے بھی چپ کرانے کی کوشش کی مگر ورکرز کہاں سن رہے تھے ۔ کرنل مراد کے اشارے ہر میجر خلیق الزمان کیانی بھاگ کر اسٹیج پر چڑھے اور نعرہ بدلا ۔ بیگم نصرت بھٹو زندہ آباد ۔ بیگم نصرت بھٹو زندہ آباد ۔ نصرت بھٹو صاحبہ نے ہنستے ہنستے چھوٹی سی تقریر کی اور اسٹیج پر بیٹھ کر بے نظیر بھٹو کی طرف دیکھ کرکے خوب ہنسیں ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو تو لوگ ایسے توجہ سے سن رہے تھے جیسے خطبہ ہورہا ہو ۔ میں خود گواہ ہوں کہ ایسے موقعوں پر چترالی جیب میں دو تین درخواستیں رکھتے تھے ۔ اگر کوٸی حکومتی عہدیدار یا سیاسی لیڈر درخواست پر یہ کہہ دیتا کہ یہ کام نہیں ہوسکتا تو چترالی اسی لمحے دوسری درخواست جیب سے نکالتا اور کہتا چلو پھر یہ دوسرا کام کردو ۔ جلسے کے بعد بے نظیر بھٹو کو بھی لوگ درخواستیں دینے لگے ۔
ایک بزرگ چترالی نے محترمہ بےنظیر بھٹو کو درخواست دی کہ میرے بیٹے کو چترال کا ڈپٹی کمشنر لگاٶ ۔ محترمہ نے ہنستے ہوٸے پوچھا ۔ بیٹے کی تعلیم کتنی ہے ۔ چترالی بابا کہنے لگا بیٹا ان پڑھ ہے ۔ محترمہ نے کہا کہ پھر یہ ڈپٹی کمشنر کا کام کیسےکرے گا ۔ بابا کہنے لگا ڈپٹی صاحب صرف ایک چھوٹا سا دستخط تو کرتا ہے اسکے علاوہ اس نے چترال میں کچھ کیا ہے تو بتاٸے ۔ یہ بات سب کو پتہ تھی کہ ڈپٹی کمشنر چترالیوں کیلیے صرف کسی درخواست پر دستخط کرنے علاوہ کچھ نہیں کرتا تھا ۔ چترالی بابا تو سادگی سے یہ سب کہہ رہا تھا مگر ڈپٹی کمشنر کی ایسی شامت آٸی کہ وہ اگلے 10 دن میں ٹرانسفر کردیا گیا ۔
کرنل مراد خان نیر مجھے اکثر کہتے کہ ڈاکٹر بشیر چترالیوں کی درخواست سے بچنا بھی ایک فن ہے اور ڈاکٹر کی ڈیوٹی کرتے وقت تمہیں یہ فن آنا چاہیے ورنہ تم انکی صرف ایک درخواست کی مار ہو ۔
#برگیڈیربشیرآراٸیں

0 Comments